انتخابی مہم پر کروڑوں روپے کے اخراجات

Last Updated On 29 June,2018 03:57 pm

لاہور(دنیا الیکشن سیل)پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کاﺅنٹ ڈاﺅن شروع ہوچکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں، آزاد امیدواران اپنے حلقوں میں سرگرم نظر آرہے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے ایک امیدوار صرف اشتہاری مہم کی مد میں 98 لاکھ 90 ہزار کے اخراجات کر رہا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 66 لاکھ 91 ہزار کے اخراجات کر رہا ہے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کی حد سے دوگنا زیادہ ہیں۔

اسی طرح قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے کئی کئی امیدوار مد مقابل ہوتے ہیں ۔ سروے کے دوران تین بڑی ملکی پارٹیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے کم سے کم تین امیدوار اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے کم سے کم اوسط 5امیدواروں کا تناسب مقرر کیا گیا ۔ 

اس تناسب سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں فی حلقہ تین امیدواروں کی اوسط سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں 816 امیدوار ہوتے ہیں، فی امیدوار 98 لاکھ 90 ہزار کے حساب سے 816 امیدواروں کے اشتہاری مہم کی مد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر اخراجات 8 ارب 7 کروڑ روپے سے زائد بن رہے ہیں۔ یعنی یہ وہ اخراجات ہیں جو امیدوار قومی اسمبلی کی نشستوں پر اشتہاری مہم کی مد میں کررہے ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 577 نشستیں ہیں جن پر اوسط 5 امیدوار فی حلقہ کے حساب سے 2885 امیدوار ہوتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار کا خرچہ 66 لاکھ 91 ہزار سے زائد آرہا ہے جبکہ 2885 امیدواروں کا اشتہاری مہم پر اخراجات تقریبا 19 ارب 30 کروڑ سے زائد بن رہا ہے ۔

یعنی ہماری قومی و صوبائی کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کی اشتہاری مہم کی مد میں مجموعی طور پر تقریبا 27 ارب 38 کروڑ روپے کے اخراجات ہو رہے ہیں جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی مقررہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خطیر اخراجات کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے افراد اپنے اخراجات وصولنے کی کوششیں کرتے ہیں جس کے بعد بڑے پیمانے پر کرپشن کے کیسز سامنے آتے ہیں جو عوام کو دن بدن جمہوری عمل سے دوری کرنے اور ووٹنگ عمل میں عدم دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔

اس سارے انتخابی عمل کو حدود و قیود کا پابند کیا جاتا ہے اور ان حدود کی نگہبانی الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے مختلف مراحل طے کرتا ہے اور ان مراحل پر طے کردہ قواعد کے مطابق عمل کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے احکاامات کی دھجیاں اڑانا انتخابات میں حصہ لینے والوں نے اپنے لئے لازم کرلیا ہے۔ انتخابی مہم کے انہی مراحل میں سے ایک مرحلہ اشتہاری مہم کا بھی ہوتا ہے ۔ دیکھا جائے تو انتخابی معرکوں میں حصہ لینے والے شاہسوار ویسے تو ہمیشہ ہی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں تاہم انتخابات کے قریب آکر اور خاص طور پر انتخابی نشانات الاٹ ہونے کے بعد انہی امیدواروں کی اشتہاری مہم میں تیزی آجاتی ہے ۔

یہ عمل بھی جمہوریت کا حسن ہے مگر یہ حسن اس وقت ماند پڑجاتا ہے جب اس میں پیسے کا بے دریغ استعمال کرکے الیکشن کمیشن کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ایک امیدوارصرف اشتہاری مہم میں صرف 40 لاکھ کے اخراجات کرسکتا ہے اور اسی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو اشتہاری مہم کی مد میں 30لاکھ روپے تک کے اخراجات کرنے کی اجازت ہے۔ مگر پاکستان میں گنگا الٹی بہتی نظر آتی ہے۔

پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ میں شاید ہی کسی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس اصول پر عمل کیا ہو۔ مخالف کو زیر کرنے کے لئے اپنائے جانے والے حربوں میں پیسے کا بے جا استعمال ایک اہم حربہ سمجھا جاتا ہے اور کروڑوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں اور پھر عام تاثر یہ ہے کہ اشتہاری مہم میں اڑایا جانے والا پیسہ مختلف غیر قانونی طریقوں سے انتخابات جیتنے کے بعد پورا کیا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے کل 272 اور صوبائی اسمبلی کے 577 حلقوں میں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار اور کئی چھوٹی اور مقامی جماعتوں کے امیدوار بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ایک حلقے میں متعدد امیدوار موجود ہیں تاہم سروے کے دوران اعداد و شمار جمع کرتے ہوئے تین بڑی جماعتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے فی حلقہ تین اور صوبائی اسمبلی میں فی حلقہ 5 امیدواروں کا تناسب رکھا گیا ہے۔ ایک حلقے میں اشتہاری مہم چلانے والا امیدوار اپنے تصویروں اور پیغامات سمیت اپنی معلومات پر مشتمل فلیکس ، پمفلٹ ، سٹیمر، سٹیکرز ، بروشرز اور بیجز تیار کرواتا ہے اوریہ وہ مواد ہے جو ہر امیدوار کم از کم لازمی بنواتا ہے بلکہ اس کے بغیر انتخابی عمل میں شمولیت کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے مختلف پرنٹنگ پریسز کے سروے کے دوران ملنے والے اعدادوشمارجمع کئے گئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

فلیکس:
فلیکس قومی و صوبائی امیدواروں کی انتخابی مہم کا اہم جز ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ فلیکسز کو عام طور پر دفاتر و اہم شاہراہوں پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ فلیکسز کے استعمال کی وجہ بارش میں اس کا خراب نہ ہونا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا امیدوار اپنے لئے تقریبا 3 لاکھ سکوائر فٹ پر مشتمل فلیکسز بنوا رہا ہے، ایک فلیکس عمومی طور پر 8x12 اور10x12 کی ہوتی ہے جس کے حساب سے ان کی تعداد تقریبا 4200 فلیکسز بنتی ہے اور ان پر 68 لاکھ 50ہزار روپے فی امیدوار خرچ آ رہا ہے ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوار اسی تعداد میں کمی کرکے تقریبا 2.5 لاکھ سکوائر فٹ پر مشتمل فلیکسز بنوا رہا ہے اور 8x12 فی فلیکس کے حساب ان کی تعداد 2600 فلیکسز فی امیدوار بنتی ہے۔
ایک امیدوار 8x12 کا ایک فلیکس جو 96 سکوائر فٹ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی لاگت 1644 روپے فی فلیکس آ رہی ہے، 4 سے 5 لاکھ سکوائر فٹ پر مشتمل فلیکسز بنوا رہا ہے جن کی تعداد تقریبا 4500 بنتی ہے اور ان پر 68 لاکھ 50 ہزار روپے کے اخراجات آ رہے ہیں۔
۔
پمفلٹ
پمفلٹ کا استعمال حلقے میں جگہ جگہ تقسیم کرکے گھروں میں اپنا پیغام پہنچانے اور اپنے کارکنوں کے زریعے گلیوں محلوں میں انفرادی ملاقاتوں میں کیا جاتا ہے۔ پمفلٹ میں امیدواران کی طرف سے اپنے انتخابی منشور سے متعلق اہم معلومات پر مبنی مخصوص و جامع معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ امیدوار کے حامی پمفلٹ کو انفرادی ملاقات کے ذریعے پیغام رسانی کا فوری اور تیز ترین ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اسے امیدوار کے حامیوں اور ووٹرز میں انتخابی مہم کے حوالے سے پہلی باقاعدہ ملاقات تصور کیا جاتا ہے۔ جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ایک پمفلٹ بنوانے پر اوسط 11 روپے کی لاگت آ رہی ہے اورعام طور پر ایک امیدوار 5 ہزار پمفلٹ بنوا رہا ہے جن پر تقریبا 55 ہزار روپے کے اخراجات آ رہے ہیں۔

سٹیمرز
اسی طرح اشتہاری مہم میں سٹیمر استعمال کیا جاتا ہے جس کا سائز عمومی طور پر 3x6رکھوایا جاتا ہے اور فی سٹیمر 260 روپے میں تیار ہورہا ہے ۔اس سے بڑا سائز رکھنے پر اسی تناسب سے رقم بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح ایک سٹیمر کو کھمبے پر لگانے کا خرچہ عام طور پر 30 روپے فی سٹیمر طے کیا جاتا ہے جس سے ایک سٹیمر کا خرچہ بڑھ کر 290روپے ہو جاتا ہے جبکہ عام طور پر قومی اسمبلی کا ایک امیدوار اپنے حلقے کے لئے اوسط 5ہزار تک سٹیمر بنوا رہا ہے۔ ان سٹیمرز پر تقریبا 14 لاکھ 50 ہزار روپے کی لاگت آ رہی ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار اوسط 3 ہزار سٹیمر بنوا رہا ہے جس پر اوسطاً 8 لاکھ 70 ہزار روپے لاگت آ رہی ہے۔ امیدواران اپنے حلقوں کی اہم شاہراہوں کی نشاندہی اپنی الیکشن ٹیم سے کرواتے ہیں جس کے لئے لوگوں کی زیادہ آمدورفت کو مد نظر رکھا جارہا ہے ۔ ان شاہراہوں کی نشاندہی کے بعد ان کے کناروں پر نصب پولز پر انتخابی تشہیری سٹیمر آویزاں کیے جا رہے ہیں۔

سٹیکرز
اشتہاری مہم کا ایک اور اہم جز و سٹیکرز ہوتے ہیں ۔ پرنٹنگ پریس میں کام کرنے والے افراد کے مطابق سب سے زیادہ مانگ اسٹیکرز کی ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے آسان اور استعمال میں قدرے اہم تصور کیا جاتا ہے ۔ اسٹیکرز امیدوار کے حامی اپنی اور اپنے ووٹرز کی جیبوں پر چپکا دیتے ہیں جبکہ اسے آسانی سے موٹر سائیکلوں، گاڑیوں کھمبوں ، دروازوں سمیت کہیں بھی چپکایا جاسکتا ہے ۔ اسٹیکرز کو پبلسٹی کا اہم ترین جز وتصور کیا جاتا ہے ۔ پرنٹنگ پریس کے مطابق امیدواران مختلف سائز کے سٹیکرز چھپوا رہے ہیں ۔ جن میں عمومی طورپر3x3 اور 10x15کے اسٹیکر چھاپے جاتے ہیں۔3x3کا ایک اسٹیکر چھپوانے کیلئے 2روپے خرچ آرہاہے اور 10x15کا ایک اسٹیکر 5روپے کا چھپ رہاہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوا ر 3x3کے اوسط30ہزاراسٹیکر ز چھپوارہا ہے جبکہ 10x15کے بھی اوسط اتنے ہی سٹیکر چھپوارہا ہے جن پر اوسط اخراجات 2 لاکھ 10 ہزار آ رہے ہیں۔

بروشرز
اشتہاری مہم کا ایک اور اہم جزو بروشر بھی ہے ۔ پرنٹنگ پریس مالکان کے مطابق بروشر کی بھی اچھی خاصی مانگ ہوتی ہے۔ بہت سی پارٹیاں اپنے منشور کے بروشر بنوارہی ہیں۔بروشر عمومی طور پر A-4 سائز کا ہوتا ہے اور انتہائی باریک کاغذ پر انتخابی منشور شائع کروایا جارہا ہے جسے گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے ۔ اس کی تقسیم کے لئے بھی مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں ۔ عمومی طور پر گھروں پر اخبار دینے والوں کو کچھ رقم دیکر اخبارات میں انتخابی امیدوار کے بروشر بھی تقسیم کئے جارہے ہیں ، کچھ نوجوانوں کو مزدوری دے کر سڑکوں چوراہوں ، بازاروں اور اہم شاہراہوں پر کھڑے کرکے عوام میں دستی تقسیم کرائے جا رہے ہیں ۔

بروشر انتہائی عام اور سادہ ہونے کی وجہ سے سستا بھی ہے ۔ ایک بروشر کا سائز عام طور پر 10x15 ہوتا ہے ۔ پبلشرز کے مطابق ایک بروشر اڑھائی روپے کا ہوتا ہے مگر ایک بروشر کوئی بھی نہیں چھپواتا بلکہ ہمیشہ بڑی تعداد میں بروشر چھاپے جاتے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے حلقے کا امیدوار عام طور پر 50ہزار بروشر چھپوارہا ہے جن کی مالیت تقریبا 1لاکھ 25ہزار روپے بنتی ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار بھی اسی طرح تقریبا 30ہزار بروشر چھپوارہا ہے جن کی مالیت تقریبا 75ہزار روپے بنتی ہے۔
۔
بیجز :
امیدوارن اپنے حامیوں میں بیجز بھی تقسیم کررے ہیں ، الیکشن مہم کے لئے اسے بھی خاص اہمیت حاصل ہے ۔ بیجز کے حوالے سے دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی تقسیم امیدواران کی جانب سے خاص طور پر اپنے کارکنان میں کی جاتی ہے ، عام ووٹر یا حامی کو بیج نہیں دئے جاتے ۔ باقاعدہ کارکنان اور الیکشن مہم میں کام کرنے والے افراد کو بیجز فراہم کئے جا رہے ہیں ۔ اس لئے بیجز عمومی طور پر دیگر اشیاءکی نسبت کم تعداد میں بنوائے جاتے ہیں ۔ بیجز عمومی طور پلاسٹک اور فائبر کے بنائے جاتے ہیں ، عام طور پر 60ہزار روپے میں ایک ہزار بیجز بنائے جارہے ہیں یعنی تقریبا ایک بیج کی قیمت 60روپے پڑتی ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواران اوسط بیس بیس ہزار بیجز بنوارہے ہیں جن کی مالیت تقریبا 12لاکھ روپے بنتی ہے۔