این اے 125: کس کو خدشات ، کس کو توقعات ؟

Last Updated On 29 June,2018 09:34 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا) لاہور کے حلقہ این اے 125 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے وحید عالم خان کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعد یہاں اب ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہو گا جبکہ اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے حافظ زبیرکاردار، ایم ایم اے کے حافظ سلمان بٹ سمیت متعدد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ این اے 125 کی سیاسی اہمیت سابق وزیراعظم نواز شریف کا آبائی حلقہ ہونا ہے اور وہ یہاں سے منتخب ہو کر تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچے 28 جولائی کو ان کی نا اہلی کے بعد یہاں سے ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے ضمنی انتخاب لڑا تھا اور ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہی ان کا مقابلہ تھا اور 2013 کے عام انتخابات میں جو نشست میاں نواز شریف نے تقریباً چالیس ہزار کی اکثریت سے جیتی تھی ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی اپنی مد مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد پر لیڈ 20 ہزار رہ گئی اب سمجھا جا رہا ہے کہ وحید عالم خان کی نامزدگی کے بعد یہاں کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔

مسلم لیگ ن مذکورہ حلقے کو اپنا سیاسی گڑھ سمجھتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے حلقے شریف خاندان سے باہر کے امیدوار وحید عالم خان کو نسبتاً کمزور سمجھتے ہوئے 25 جولائی کو معرکہ سر کرنے کی توقعات قائم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ این اے 125 جناح ہال، ساندہ ،ریواز گارڈن ، مزنگ، سنت نگر، راج گڑھ، موھنی روڈ، مومن پورہ، کریم پارک، فرید کوٹ ہاؤس، لٹن روڈ ، داتا دربار، سگیاں بائی پاس روڈ، راوی روڈ پر مشتمل ہے اور یہاں کی بڑی برادریوں میں ارائیں، راجپوت، جاٹ، مغل اور کشمیری برادری شامل ہے ماضی میں یہ حلقہ این اے 120 تھا جو اب این اے 125 قرار پایا ہے ۔ 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پرویز ملک امیدوار تھے جو پیپلز پارٹی کے الطاف قریشی اور مسلم لیگ قائداعظم کے میاں اشرف کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے جبکہ 2008 کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے بلال یاسین نے پیپلز پارٹی کے مرحوم رہنما جہانگیر بدر کو تقریباً چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

2013 کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 91653 اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52354 ووٹ حاصل کئے تھے اور نواز شریف کو تقریباً چالیس ہزار کی برتری حاصل تھی۔ اس حلقہ سے نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے یہ معرکہ تقریباً بیس (20) ہزار ووٹوں سے سر کیا تھا۔ مسلم لیگ ن نے پہلے پہل نواز شریف کی آبائی سیٹ سمجھتے ہوئے یہاں ان کی بیٹی مریم نواز کو نامزد کیا اور بعد ازاں ان کیلئے محفوظ سیٹ کے طور پر این اے 127 کا انتخاب کیا جس کے بعد یہاں لیگی حلقوں میں سرد جنگ نظر آئی اور ماضی میں یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے پرویز ملک اور بلال یاسین کے درمیان کشمکش کی صورتحال طاری رہی۔ بعد ازاں پرویز ملک نے بھی پارٹی گروپنگ سے بچنے کیلئے پارٹی کو اس حلقہ کے بجائے این اے 133 سے ٹکٹ جاری کرنے کی اپیل کی جو قبول کر لی گئی اور انہیں این اے 133 سے امیدوار نامزد کر دیا گیا جبکہ این اے 133 سے امیدوار وحید عالم کو این اے 125 میں نامزد کر دیا گیا۔

لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ پرویز ملک کو بطور امیدوار قبول نہ کرنے کی دھمکی دینے والے بلال یاسین وحید عالم کو قبول کر پاتے ہیں یا نہیں۔ مریم نواز کے این اے 127 میں جانے اور جماعت میں کشمکش کی صورتحال سے ایک عام تاثر یہ پیدا ہوا کہ مسلم لیگ ن کو اس حلقہ میں ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہاتھوں ٹف ٹائم مل سکتا ہے جبکہ لیگی حلقے اب بھی مصر ہیں کہ یہ ہمارا پکا حلقہ ہے لیکن ملک کے اندر پیدا شدہ حالات اور عوامی سطح پر پیدا شدہ رجحانات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اپنے قائد نواز شریف کے اس آبائی حلقہ میں 25 جولائی کو ایک زور دار مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا جس کیلئے ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی انتخابی مہم منظم کر چکی ہیں اور مسلم لیگ ن نے ابھی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنا ہے۔