سیاسی جوڑ توڑ اور جماعتوں کا کردار

Last Updated On 28 June,2018 03:53 pm

دنیا (الیکشن سیل) 1988ء سے اب تک کی ملکی تاریخ میں ہونے والے عام انتخابات کی طرح اس سال بھی بہت سی چھوٹی بڑی مذہبی سیاسی اور سیاسی جماعتوں کے وجود میں آنے اور پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں کے قبل از انتخابات کسی بڑی پارٹی میں خود کو ضم کر لینے کی خبروں نے سر نکالنا شروع کیا ہے جو ہمیشہ انتخابات کے دنوں میں ہونے والے سیاسی جوڑ توڑ میں اہم کردار کی حامل ثابت ہوتی ہیں ۔


ایک صورت میں تو انتخابات میں ہونے والے سیاسی گٹھ جوڑ میں پہلے سے موجود یا نئی معرض وجود میں آنے والی یہ چھوٹی سیاسی جماعتیں انتخابات میں ناکامی کی صورت میں ختم ہوجاتی ہیں جےسے کہ پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں معرض وجود میں آنے والی تحفظ پاکستان پارٹی الیکشن میں ناکامی کے بعد ختم ہوگئی۔

عام انتخابات 2018ء سے پہلے بھی کچھ نئی سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں جن کے بارے میں ہمیشہ سے انتخابات کے زمانے کی نومولود سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کیا جانے والا قیاس سامنے آتا ہے کہ یہ نئی وجود میں آنے والی جماعتیں کسی ایک بڑی جماعت کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچانے کا ایک حربہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

انتخابات 2018ءسے پہلے معارض وجود میں آنے والی ان سیاسی جماعتوں میں تحریک لبیک پاکستان ، اللہ اکبرتحریک ،پاکستان تحریک انصاف( نظریاتی)، پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) ،بلوچستان عوامی پارٹی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی قابل ذکر ہیں۔

ایک صورت میں یہ جماعتیں دور انتخاب میں یا انتخابات کے فورا بعد کسی بڑی جماعت میں ضم ہو جاتی ہیں۔ غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی جو 2002ءکے جنرل الیکشن میں قومی اتحاد (نیشنل الائنس) کا بھی حصہ تھی جس میں سندھ ڈیموکریٹک الائنس ، ملت پارتی اور سندھ نیشنل فرنٹ بھی شامل تھیں نے مئی 2013ءکے انتخابات کے فورا بعد خود کو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ضم کر دیا۔

ملکی انتخابی تاریخ میں قارئین کے لیے چند مثالیں واضع ہیں کہ یہ چھوٹی اور نومولود جماعتیں کسی ایک بڑی جماعت کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچاتے ہوئے انتخابات کے فورا بعد کسی دوسری بڑی جماعت میں ضم ہو جاتی ہیں یا کہیں کھو جاتی ہیں،2012ء میں لیاقت جتوئی کی سربراہی میں بننے والی جماعت بنام سندھ عوامی اتحاد اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچاتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ضم ہوگئی۔

اسی طرح2004ءمیں نیشنل الائنس (جو 2002ءمیں سندھ ڈیموکریٹک الائنس ، نیشنل پیپلز پارٹی، ملت پارٹی اور سندھ نیشنل فرنٹ کی مدد سے بنا )اور مسلم لیگ نام کی حامل تمام جماعتوں)سوائے مسلم لیگ (ن)  جو بذات خود مسلم لیگ (جونیجو) سے علیحدہ شدہ اک نئی مگر زیادہ پذیرائی کی حامل جماعت تھی   جن میں میاں منطور وٹو کی پاکستان مسلم لیگ (جناح)،اعجازالحق کی پاکستان مسلم لیگ (ضیاءالحق)حامد ناصر چٹھہ کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (جونیجو)اور پیر پگاڑا کی پاکستان مسلم لیگ( فنکشنل )نے ایک متحد مسلم لیگ بناتے ہوئے خود کو مسلم لیگ (ق) میں ضم کر دیا۔ مگر کچھ عرصہ بعدپیر پگاڑا نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کو اس متحد مسلم لیگ سے علیحدہ کر لیا۔مسلم لیگ ق میں شامل ہونے والی ان تمام جماعتوں میں متعدد وہ رہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن )اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچایا۔

اسی طرح 2017ءمیں کچھ چھوٹی سیاسی جماعتون کا خود کو کسی بڑی جماعت میں ضم کر لینے کے واقعات سامنے آئے جن میں سندھ نیشنل فرنٹ ،صوابی خیبر پختونخوا سے لیاقت خان ترکئی کی جماعت عوامی جمہوری اتحاد اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا خود کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر لینے کے واقعات قابل ذکر ہیں۔

ماضی کی طرح 2018ءکے عام انتخابات سے پہلے پنپی ہوئی کچھ نئی سیاسی جماعتوں جن میں تحریک لبیک پاکستان، اللہ اکبر تحریک ، پاکستان تحریک انصاف( نظریاتی )، پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) ، بلوچستان عوامی پارٹی اور سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوھدری کی پاکستان جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی کے حوالے سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ2018ء کے انتخابی موسم کے دوران پیدا ہونے والی یہ جماعتیں آئندہ دنوں میں اپنی سیاسی شناخت اور ساکھ قائم رکھتی ہیں یا ماضی کی طرح انتخابات کے بعد کسی دوسری پارٹی کا حصہ بن جاتی ہیں۔