ما ضی کی طرح 2018 میں بھی سیاسی اتحاد سرگرم

Last Updated On 28 June,2018 03:42 pm

لاہور(الیکشن سیل) 2018 الیکشن میں اپنی اپنی جگہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں۔ جنوبی صوبہ محاذ میں سابق نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی قیادت میں سابق ایم این اے خسرو بختیار، رانا فراز نون، باسط سلطان،علمدار قریشی،ذیشان گرمانی، مرتضیٰ رحیم کھراور طاہر چیمہ قابل ذکر ہیں۔ پیر پگارا کی سربراہی میں بننے وا لے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں مسلم لیگ فنکشنل کے اہم رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ سابق وزرائے اعلیٰ سید غوث علی شاہ‘ ممتاز بھٹو اور ارباب غلام رحیم سمیت فنکشنل لیگ کے مظفر شاہ، قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو، سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا، سابق ایم پی اے سردار عبدالرحیم اور سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر نمایاں ہیں۔

ان کے علاوہ صفدرعباسی، ناہیدعباسی،رسول بخش پلیجو ،عبدالکریم شیخ، سابق وزیر عرفان اللہ خان مروت اور حاجی شفیع جاموٹ بھی سیاسی طورپر اہم نام ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی، جے یو آئی -ف، جے یو پی، جمعیت اہل الحدیث،تحریک جعفریہ پاکستان شامل ہیں۔

پی ٹی آئی، پی ایم ایل-ق،پی ایم ایل-ض، اور مجلس وحدت المسلمین اور عوامی مسلم لیگ نے بھی الحاق کے بعد عام انتخابات2018 میں اتر رہے ہیں۔ اتحاد الیکشن سے پہلے یا آزاد لڑ کر کامیابی کے بعد حکومت بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوری نظام رکھتا ہے۔ سیاسی اتحادوں کی تاریخ 1973سے شروع ہو ئی جب اصغر خان کی تحریک استقلال اور جے یو پی نورانی کے علاوہ تمام حزب اختلاف کی پارٹیوں نے مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف پارلیمینٹ کے اندر اور باہر متحدہ جمہوری فرنٹ تشکیل دیا۔

پہلا بڑا جمہوری اتحاد اس وقت بنا جب نو بڑی جماعتوں نے مل کر جنوری 1977 میں لاہور سے اعلان کیا کہ وہ ایک پلیٹ فارم پاکستان نیشنل الائنس سے الیکشن لڑیں گے۔ پاکستان نیشنل الائنس نے تمام حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے اور پیپلز پارٹی کے مد مقابل آگئے۔ پاکستان نیشنل الائنس میں پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علماءاسلام مفتی، جمعیت علماءپاکستان ، تحریک استقلال، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک کے ساتھ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھے۔ یہ اتحاد ہل کے انتخابی نشان سے لڑا۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے ملک گیر احتجاجی مہم کا آغاز ہوا جو کہ جنرل ضیاء الحق کے 5 جولائی 1977 مارشل لاءتک جاری رہے۔

پاکستان میں 1985میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد 1988میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اور قوم نے پھر ایک اور نو جماعتی اتحاد دیکھا۔ یہ اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کہلایا۔اس اتحاد میں پی ایم ایل، جے آئی، جے یو آئی، نیشنل پیپلز پارٹی، نظام مصطفیٰ گروپ ، مرکزی جمعیت اہل حدیث(لکھوی)، جمعیت مشائخ پاکستان، آزاد گروپ اور حزب اجہاد شامل تھے۔ یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی نشان تیر کے مقابلے میں سائیکل پر عام انتخابات میںمد مقابل آیا۔

1990 کے عام انتخابات میں آئی جے آئی دوبارہ میدان میں آیا۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی نے تین جماعتوں ٹی آئی، ٹی این ایف جے اور پی ایم ایل -قاسم کے ساتھ مل کر پاکستان جمہوری اتحاد بنایا۔ 1993کے عام انتخابات میں 3نئے اتحاد سامنے آئے۔ ان میں متحدہ دینی محاز، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری محاذ بنے۔ یہ تمام اتحاد 1997سے پہلے ختم ہو گئے۔

1997 میں نواز شریف کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خاں کی قیادت میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بنا۔1999 میں جنرل پرویزمشرف اقتدار میں آئے۔ 2000میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت میںاتحادبرائے بحالی جمہوربنا ۔2002میں متحدہ مجلس عمل بنی جوکہ پرویزمشرف کے امریکہ کی افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں بنی۔اس کے ساتھ 2002میں نیشنل الائنس بنی جس میں سندھ ڈیموکریٹک الائنس، ملت پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل تھیں۔

2008 میں متحدہ مجلس عمل جماعت اسلامی، جے یو آئی -ف، جے یو آئی-س کے الحاق سے عام انتخابات میں حصہ لیامگرخاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ 2013 میں جے یو آئی-ف اور جماعت اسلامی الگ الگ الیکشن لڑے۔

عام انتخابات برائے 2018کی آمد آمد ہے تمام پارٹیاں اور اتحاد سرگرم ہیں۔وقت ہی بتائے گا کہ حالیہ بنائے گئے اتحادکس حد تک کار گر ثابت ہوتے ہیں۔