لاہور: (روزنامہ دنیا) ماضی کی طرح 2018میں بھی سیاسی اتحاد سرگرم ہو گئے۔ جنوبی صوبہ محاذ میں سابق نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی قیادت میں سابق ایم این اے خسرو بختیار، رانا فراز نون،باسط سلطان، علمدار قریشی، ذیشان گرمانی، مرتضیٰ رحیم کھر اور طاہر چیمہ قابل ذکر ہیں۔
پیر پگاڑا کی سربراہی میں بننے وا لے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں مسلم لیگ فنکشنل کے اہم رہنماؤں کے ساتھ سابق وزرائے اعلیٰ سید غوث علی شاہ’ ممتاز بھٹو اور ارباب غلام رحیم سمیت فنکشنل لیگ کے مظفر شاہ، قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو’ سابق وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا ،سابق ایم پی اے سردار عبدالرحیم اورسابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ صفدرعباسی، ناہیدعباسی، رسول بخش پلیجو، عبدالکریم شیخ، سابق وزیر عرفان اللہ خان مروت اور حاجی شفیع جاموٹ بھی سیاسی طور پر اہم نام ہیں۔
پی ٹی آئی، پی ایم ایل(ق)، پی ایم ایل(ض)، مجلس وحدت المسلمین اور عوامی مسلم لیگ بھی الحاق کے بعد عام انتخابات 2018 لڑ رہے ہیں۔ اتحاد الیکشن سے پہلے یا آزاد لڑ کر کامیابی کے بعد حکومت بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوری نظام رکھتا ہے۔ سیاسی اتحادوں کی تاریخ 1973 سے شروع ہو ئی جب اصغر خان کی تحریک استقلال اور جے یو پی نورانی کے علاوہ تمام حزب اختلاف کی پارٹیوں نے مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متحدہ جمہوری فرنٹ تشکیل دیا۔
پہلا بڑا جمہوری اتحاد اس وقت بنا جب 9 بڑی جماعتوں نے مل کر جنوری 1977 میں لاہور سے اعلان کیا کہ وہ ایک پلیٹ فارم پاکستان نیشنل الائنس سے الیکشن لڑیں گے۔ پاکستان نیشنل الائنس میں پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام مفتی، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک استقلال، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک شامل تھے۔ یہ اتحاد ہل کے انتخابی نشان سے الیکشن لڑا۔ 2008 میں متحدہ مجلس عمل اتحاد میں شامل جے یو آئی-ف، جے یو آئی-س نے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ 2013میں جے یو آئی-ف اور جماعت اسلامی نے الگ الگ الیکشن لڑے۔