پی ٹی آئی ٹکٹوں کی تقسیم پر تقسیم، پنجاب میں بھاری نقصان کا خدشہ

Last Updated On 25 June,2018 11:22 pm

لاہور: (دنیا الیکشن سیل) پاکستان تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جہاں دوسری جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے وہیں پی ٹی آئی کی یہ مقبولیت اس کے اپنے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔

 پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بات اب پریس کانفرنس اور اپنی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے تک پہنچ چکی ہے۔ اگر یہ ناراض رہنماء اپنی پارٹی کے خلاف میدان میں اترتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کو جہاں نقصان ہوگا وہیں دوسری سیاسی جماعتوں کو ان نشستوں پر بہت فائدہ ہوگا۔ دوسری سیاسی جماعتیں اس سلگتی ہوئی چنگاری کو تحریک انصاف کے خلاف ایک لاوا بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں تا کہ تحریک انصاف کو اندرونی اختلافات کی بنا پر جس حد تک ہو سکے سیٹوں سے محروم کیا جائے۔

پنجاب میں اس وقت یہ اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ کافی سارے مضبوط امیدواروں نے پارٹی کے ساتھ مقابلے کی ٹھان لی ہے اور پارٹی کو اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں کہ و ہ پارٹی کے بنا بھی الیکشن لڑسکتے ہیں اور جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

میانوالی این اے 95 سے پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ ساتھی ملک وحید خان نواب آف کالا باغ نے 2013 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 76684 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے تھے، اس بار پاکستان تحریک انصاف سے اندرونی اختلافات کی وجہ سے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں اپنے گروپ سے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی اہم ترین رکن عائلہ ملک بھی اس گروپ کی حمایت کر رہی ہیں اور ملک وحید خان کا الیکشن لڑنا پاکستان تحریک انصاف کیلئے خطرے کی بات ہے۔

اوکاڑہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدر اظہر محمود چودھری جنہوں نے 2013 کے الیکشن میں تقریباً 16000 ووٹ لیا تھا۔ انہوں نے بھی پارٹی سے اختلافات کی وجہ سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو نقصان ہوگا۔

ملتان سے سابق ایم پی اے اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار این اے 154 احمد حسین ڈیہڑ نے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ نا ملنے پر این اے 154 سے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور ان کا اپنی پارٹی سے باغی ہو کر الیکشن لڑنا پی ٹی آئی کو صرف این اے 154 میں ہی نہیں بلکہ پورے ملتان میں متاثر کرے گا، جو کہ پارٹی کیلئے اچھی خبر نہیں ہے۔

لودھراں سے امان اللہ خان نے 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور 40 ہزار ووٹ لیے لیکن 2018 میں ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ وہ اب آزاد حیثیت سے اپنی پارٹی کے خلاف میدان میں اتریں گے اور ان کا لودھراں کی دونوں قومی اور دو صوبائی نشستوں پر اثر و رسوخ ہے۔

سب سے زیادہ اختلافات مظفرگڑھ میں سامنے آئے ہیں، جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کے باغی رہنماء اپنی ہی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ این اے 181 پر کپتان کے پرانے ساتھی میاں شبیر علی قریشی نے اپنی پارٹی کے امیدوار ملک مصطفیٰ کھر کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں بھی تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ورکرز بھی میاں شبیر علی قریشی کو اپنا امیدوار لانا چاہتے تھے۔

ضلعی قیادت سے اختلافات کی وجہ سے این اے 183 پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میاں صدام سکھیرا کو ٹکٹ نا دیے جانے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے بھی اپنی پارٹی کےخلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ پی پی 277 پر بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، جس وجہ سے تحریک انصاف کا یہ حلقہ کمزور ہو جائے گا۔

پی پی 270 پر پاکستان تحریک انصاف کے سابق ٹکٹ ہولڈر سردار عبدالحئی خان دستی جنہوں نے ضمنی الیکشن میں 17065 ووٹ لیتے ہوئے حکمران جماعت کو بہت ٹف ٹائم دیا تھا اور اب بھی اس نشست پر تحریک انصاف کے پاس ان سے زیادہ مضبوط امیدوار کوئی نہیں ہے لیکن اگر ان کو ضلعی قیادت اور مقامی امیدواروں سے اختلافات کی وجہ سے تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا تو وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے، جو کہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ ان کا اثرورسوخ پی پی 269 اور این اے 182 پر بھی ہے۔ ان تین حلقوں میں تحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

پی پی 277 پر پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ امیدوار ارشد خان اپنی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ وہ اس سیٹ پر پاکستان تحریک انصاف کی ہار کہ وجہ بن سکتے ہیں کیونکہ اس حلقہ میں 3 یونین کونسلز کے چئیرمین ان کے ساتھ ہیں اور 2013 کے جنرل الیکشن میں 7307 ووٹ حاصل کیے تھے۔2013 میں ان کا پہلا الیکشن تھا۔

پی پی 278 پر تحریک انصاف کے رہنماء نیاز خان گشکوری بھی اپنی پارٹی کی جیت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں کیونکہ ان کا ذاتی ووٹ بینک بہت زیادہ ہے اور 2013 کے جنرل الیکشن میں آزاد حیثیت سے 16815 ووٹ لیے تھے۔ ان کا یہ ووٹ اپنی ہی پارٹی کو ہروا دے گا۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پاکستان تحریک انصاف کے سابق ٹکٹ ہولڈر میاں اختر علی جاوید نے پچھلے الیکشن میں تقریباً 16000 ووٹ لیے تھے اور اب تحریک انصاف کا ٹکٹ نا ملنے پر اپنی ہی پارٹی کا مقابلہ کریں گے۔

وہاڑی میں بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدر خالد محمود چوہان کو این اے 162 سے ٹکٹ نا ملنے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے خلاف الیکشن میں حصہ لیں گے۔ یہ ایک مضبوط امیدوار ہیں جو پارٹی کا ووٹ توڑ سکتے ہیں۔ 

وہاڑی سے ہی سابق ایم پی اے طاہر احمد واہلہ کو پاکستان تحریک انصاف نے پی پی 234 کا ٹکٹ نہیں دیا، جس وجہ سے وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے اور پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو متاثر کریں گے۔ انہوں نے پی پی 232 پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

لیہ سے بھی پاکستان تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے کے پارٹی اختلافات کی وجہ سے پارٹی نے ٹکٹ نا دینے کے فیصلہ کیا ہے اور انہوں نے این اے 187 پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا ووٹ بینک بھی بہت زیادہ ہے۔

جھنگ سے ضلعی نائب صدر ڈاکٹر ابوالحسن انصاری نے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی پی 126 سے اپنی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ جس سے کافی حد تک پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ متاثر ہوگا۔

پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی 7 نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔