صدارتی انتخاب : امریکی ریاست جہاں مشرق وسطیٰ کی جنگ نتیجہ بدل سکتی ہے

Published On 30 October,2024 12:52 pm

مشی گن : (ویب ڈیسک ) امریکہ میں صدارتی انتخابات چند دن کی دوری پرہیں اور کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلہ ہے ایسے میں ایک امریکی ریاست ایسی بھی ہے جہاں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے نتیجے پر بھی فیصلہ ہوسکتا ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق متعدد سروے اور پولز بتارہے ہیں کہ  ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان نہیں۔

امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل کالج سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل 538 ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا گیا ہے۔

امریکی ریاست مشیگن کے الیکٹورل کالج میں 15 ووٹ ہیں اور یہاں عرب نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے  نے مشی گن میں ایک سروے کیا  ہے جس میں یہ دیکھا گیا کہ عرب نژاد امریکی شہری کس امیدوار کو ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں، مشیگن میں مقیم عربوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی لیکن ان کے رجحانات کی شناخت کرنا آسان نہیں۔

نیشنل عرب امریکن فریم ورک کی ڈائریکٹر ریما مروہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی مردم شماری کے نظام میں عربوں کو دوسری قوموں کی طرح الگ نسل کے طور پر نہیں گنا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ ، رئیل سٹیٹ سے سیاست تک کے سفرپرایک نظر

مشی گن میں کل ووٹرز کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو عرب ووٹرز کی تعداد اتنی نہیں لگتی لیکن اگر گزشتہ دو الیکشن پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے یہاں چند ہزار ووٹ بھی کسی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن میں 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جبکہ 2020 میں جو بائیڈن نے یہاں تقریباً ایک لاکھ ووٹ کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرایا تھا ۔

ماضی میں عرب ووٹرز کسی ایک مسئلے کی بنیاد پر امیدوار کو ووٹ نہیں دیا کرتے تھے مگر غزہ جنگ کے بعد سے ان کا رویہ بدلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

عرب نژاد امریکی اس بات پر تو متفق ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ ہے لیکن کسے ووٹ دینا ہے اس پر وہ منقسم دکھائی دیتے ہیں ، کچھ کا خیال ہے کہ ٹرمپ اس جنگ کو ختم کر پائیں گے جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ ہیرس یہ کام کر سکیں گی۔

عرب نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد گرین پارٹی کے جل سٹین کی بھی حامی ہے جو ترقی پسند خیالات اور رجحانات رکھتی ہیں ، جل سٹین ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن پارٹیوں کی اسرائیل نواز روایتی امریکی پالیسیوں کی سخت ناقد ہیں ۔