انتخابات 2024: امریکہ میں عوام اپنا صدر کیسے منتخب کرتے ہیں؟

Published On 23 October,2024 09:18 am

نیویارک : (ویب ڈیسک ) دنیا بھر کی نظریں اس وقت امریکی انتخابات پر ہیں ، امریکی شہری آئندہ ماہ نئے صدر کے انتخاب کیلئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

 امریکہ کے صدارتی انتخابات میں 161.42 ملین رجسٹرڈ ووٹرز نئے صدر کے انتخاب کیلئے اپنا حق رائے دہی کیسے استعمال کریں گے اس حوالے سے  ایک سادہ طریقہ کار ہم یہاں آپ کو بتا رہے ہیں۔

نئی حکومت چار سالہ مدت کیلئے جنوری 2025 سے شروع ہو گی ، امریکی شہری کانگریس کے اراکین کا انتخاب بھی کریں گے، جو ملک میں ان قوانین کی منظوری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

صدر کو اپنے طور پر بھی کچھ قوانین منظور کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے تاہم زیادہ تر قانون سازی کے لیے اسے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے ، عالمی سطح پر امریکی صدر کو بیرون ملک اپنے ملک کی نمائندگی کرنے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کافی آزادی حاصل ہوتی ہے۔

امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔

الیکٹورل کالج کیا ہے جس کیلئے امریکی ووٹ ڈالتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب میں یہ سب سے اہم اور پیچیدہ ادارہ الیکٹورل کالج ہے، بنیادی طور پر الیکٹورل کالج ایک ایسا ادارہ ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کالج کے ارکان جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے، عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں۔

یعنی جب امریکی عوام صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو دراصل وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کو چننا ہے۔

نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ اصل میں ان الیکٹرز کے لیے ہوتی ہے جو حتمی طور پر صدر کا انتخاب کرتے ہیں، ہر ریاست میں ووٹنگ کے وقت اصل میں ووٹر جس بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنا ووٹ دیتے ہیں اس پر درج ہوتا ہے  الیکٹرز برائے (امیدوار کا نام) ۔

یہ الیکٹرز منتخب ہونے کے بعد دسمبر کے مہینے میں اپنی اپنی ریاست میں ایک جگہ اکھٹے ہو کر صدر کے چناؤ لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔

ماضی میں یہ الیکٹرز اپنی مرضے سے بھی ووٹ ڈال سکتے تھے لیکن اب قانونی طور پر یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کے لیے ووٹ ڈال سکتے ہیں جس کے نام پر انھوں نے ووٹ لیے ہیں۔

الیکٹورل کالج کیسے کام کرتا ہے؟

امریکہ کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے طے ہوتی ہے جبکہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔

ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور اس کے جتنے سینیٹر سینیٹ میں ہوتے ہیں اتنی ہی اس کے الیکٹورل کالج میں الیکٹرز ہوتے ہیں یعنی اگر کسی ریاست کی کانگریس میں دس سیٹیں ہیں اور اس کی دو سیٹیں سینیٹ میں ہیں تو اس ریاست سے الیکٹورل کالج میں جانے والے الیکٹرز کی کل تعداد بارہ ہوگی۔

امریکہ میں ریاست کیلیفورنیا کے سب سے زیادہ یعنی 55 الیکٹرز ہیں جبکہ کم آبادی والی ریاستوں جیسے کہ وایومنگ، الاسکا یا شمالی ڈکوٹا میں ان کی تعداد تین ہے جو کہ کسی بھی ریاست کے لیے کم سے کم مقرر کردہ تعداد ہے۔

امریکہ کا صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 یا اس سے زیادہ الیکٹرز کی حمایت درکار ہوتی ہے عموماً ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں جسے ریاست میں عوام کے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں :امریکی انتخابات : 7 ریاستیں جووائٹ ہاؤس تک پہنچانے کی راہ ہموار کرتی ہیں

مثال کے طور پر اگر ریاست ٹیکساس میں رپبلکن امیدوار نے 50.1 فیصد ووٹ لیے ہیں تو ریاست کے تمام 38 الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کے نام ہو جائیں گے، صرف مین اور نبراسکا دو ایسی ریاستیں ہیں جو اپنے الیکٹورل کالج ووٹ امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کرتی ہیں۔

اسی لیے صدارتی امیدوار ان ریاستوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جنھیں ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں نتائج کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں ۔

صدارتی امیدوار جتنی زیادہ ریاستوں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اس کے الیکٹورل ووٹ اتنے ہی وائٹ ہاؤس کے دروازے کھلواتے ہیں ۔

کسی امیدوار کا ملک بھر سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ممکن ہے تاہم اس کے باوجود وہ صدر نہیں بن سکتا، جیسے سنہ 2016 میں ہیلری کلنٹن کو سب سے زیادہ ووٹ ملے لیکن الیکٹورل کالج میں انھیں شکست ہوئی۔

کیا الیکٹرز عام ووٹنگ میں فاتح امیدوار کو ہی ووٹ دیں گے؟

کچھ ریاستوں میں الیکٹرز اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں چاہے عوام نے اسے جتوایا ہو یا نہیں لیکن عام طور پر الیکٹرز اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جسے ان کی ریاست کے عوام نے زیادہ ووٹ دیے ہوں۔

اگر کسی امیدوار کو اکثریت نہ ملے تو کیا ہوتا ہے؟

ایسی صورتحال میں ایوانِ نمائندگان صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتا ہے، ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے جب 1824 میں الیکٹورل ووٹ چار امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوئے اور کسی کو اکثریت نہیں مل سکی، چونکہ اب امریکی سیاست میں صرف دو جماعتیں سرفہرست ہیں اس لیے ایسا دوبارہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔

امریکی صدارتی الیکشن میں کون ووٹ ڈال سکتا ہے؟

زیادہ تر امریکی شہری جن کی عمر 18 برس یا اس سے زیادہ ہے، وہ صدارتی الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں۔

شمالی ڈکوٹا کے علاوہ تمام ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے پہلے خود کو رجسٹر کرنا ہوتا ہے، ہر ریاست کا ووٹر رجسٹریشن کا اپنا عمل اور ڈیڈ لائن ہوتی ہے۔

بیرون ملک مقیم امریکی شہری فیڈرل پوسٹ کارڈ ایپلیکیشن (ایف سی پی اے) مکمل کر کے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں۔

نومبر میں صدر کے علاوہ اور کس کا انتخاب ہو گا؟

اگرچہ تمام تر نگاہیں اس بات پر ہوں گی کہ امریکہ کا اگلا صدر کون بنتا ہے تاہم ووٹرز کانگریس اراکین کا انتخاب بھی کریں گے، کانگریس ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے، جس کی 435 نشتسوں پر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ سینٹ کی 100نشستوں پر بھی مقابلہ ہوتا ہے۔

فی الحال ایوان میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے، یہ ایوان ملک کے مالی اخراجات سے متعلق منصوبوں کی منظوری دیتا ہے جبکہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی تعداد زیادہ ہے جو اہم حکومتی تقرریوں کے بارے میں اپنا ووٹ دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :دنیا کی سپرپاور امریکا پر حکمرانی کرنے والے صدور

یہ دونوں ایوان قوانین منظور کرتے ہیں اور اگر دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک ایوان میں صدر کی مخالف جماعت کو اکثریت حاصل ہے تو وہ وائٹ ہاؤس کے منصوبوں کو روک بھی سکتی ہے۔

منتخب فاتح کا اعلان کب ہوگا؟

عام طور پر فاتح کا اعلان الیکشن کی رات کر دیا جاتا ہے تاہم سنہ 2020 میں ووٹوں کی گنتی میں کچھ دن لگ گئے تھے۔

اگر انتخابی نتائج کی صورت میں صدر تبدیل ہو رہا ہو تو الیکشن کے بعد کے دورانیے کو ’ٹرانزیشن‘ یعنی منتقلی کا وقت کہا جاتا ہے۔

اس دوران نئی آنے والی انتظامیہ کو کابینہ میں وزرا کی تقرری اور نئی مدت کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا وقت ملتا ہے، نئے منتخب ہونے والے صدر جنوری میں باضابطہ طور پر ایک تقریب میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں، جس کا انعقاد واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل کی عمارت کی سیڑھیوں پر کیا جاتا ہے۔