کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کیساتھ امن مذاکرات پر توجہ دے: افغان طالبان

Published On 10 December,2021 06:38 pm

کابل: (دنیا نیوز) افغان طالبان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی ٹی) پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات پر توجہ دے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان طالبان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہماری تحریک کا حصہ نہیں تھی اور کالعدم ٹی ٹی پی پاکستانی حکومت کے ساتھ امن قائم کرنے پر توجہ دیں۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کو اسلامی امارات افغانستان کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک تنظیم کے طور پر اسلامی امارات افغانستان کا حصہ نہیں اور ہمارے اہداف ایک جیسے نہیں۔ ہم کالعدم ٹی ٹی پی کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے ملک میں امن اور استحکام پر توجہ دیں۔ یہ بہت اہم ہے تاکہ خطے اور پاکستان میں دشمنوں کی مداخلت کے کسی بھی امکان کو ختم کر سکیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اعلان کیا تھا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی پر متفق ہوگئی ہے اور فریقین کے متفق ہونے پر اس میں توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ جس کے بعد جامع امن معاہدے کی راہ ہموار اور برسوں سے جاری خونریزی ختم ہوتی نظر آنے لگی تھی۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گذشتہ ماہ اعتراف کیا تھا کہ افغان طالبان پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

امریکا ہمارے فنڈز جاری کرے: ترجمان افغان طالبان

دوسری طرف ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش اب کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ یہ ایک چھوٹا گروپ تھا جسے اب کابل اور جلال آباد میں ختم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کی سابق حکومت نے داعش کو مضبوط کیا تاکہ ان دہشتگرد تنظیم کو طالبان کیخلاف استعمال کیا جا سکے۔ ابتدائی طور پر جب ہم کابل میں داخل ہوئے وہاں کوئی سکیورٹی اور مواصلاتی نظام نہیں تھا اور داعش کو حملے کرنے اور مساجد اور عوامی مقامات کو عام شہریوں میں خوف پھیلانے میں سابق حکومت نے مدد فراہم کی۔

انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں کی افغانستان میں کوئی جگہ نہیں، افغان عوام نے ان کے نظریے کو مسترد کر دیا ہے۔ان کے ساتھ شرعی قانون کے تحت معاملہ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا نے اگست میں انکے اثاثے بلاک کر دیے تھے جس کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا تھا۔ ہمارے اثاثے منجمد کرنے کا امریکی اقدام بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی دوحہ میں امریکی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد واشنگٹن جلد ہی اپنے فنڈز جاری کرے گا۔

واضح رہے کہ چین، روس، پاکستان اور قطر سمیت کئی ممالک نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کو اپنے غیر ملکی ذخائر تک رسائی کی اجازت دے، لیکن ابھی تک کوئی مثبت اشارے نہیں ملے ہیں۔

انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا کہ کچھ مغربی ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کابینہ میں سابقہ حکومت کے کچھ نمائندوں کو نمائندگی دیں اس پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک ایک جامع حکومت کی بات کر رہے ہیں لیکن ایسے مطالبات افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں۔ . اگر وہ دباؤ ڈالیں گے تو رد عمل سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ طالبان نے پہلے ہی ایک جامع حکومت تشکیل دی ہے جس میں تمام نسلی گروہوں کے نمائندے شامل ہیں، جن میں تاجک، بلوچ، ترکمان، نورستانی، ازبک اور متعدد دیگر نسلی گروہ شامل ہیں۔