لندن: (دنیا نیوز) برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر ملک بھر میں نافذ لاک ڈاؤن میں مزید تین ہفتے کی توسیع کا اعلان کر دیا ہے جبکہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے باعث مہلک وباء سے ہونے والی ہلاکتیں چھپائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانیہ کے قائمقام وزیراعظم ڈومینک راب کا کہنا ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن کے مثبت نتائج نکلے اور اس سے کورونا وائرس کو روکنے میں مدد ملی ہے۔
ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ سائینٹفک ٹیم کے مشورہ پر لاک ڈاؤن کے اقدامات کو تین ہفتے کیلئے بڑھا دیا گیا ہے۔ مزید تین ہفتے کے بعد دوبارہ جائزہ لے کر اقدامات کا اعلان کریں گے۔
دوسری طرف برطانیہ کے ہسپتالوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات میں 861 کا اضافہ ہوا ہے اور کل تعداد 13 ہزار 729 ہوگئی ہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر کے مطابق جمعرات کی صبح مقامی وقت کے مطابق 9 بجے تک 3 لاکھ 27 ہزار 608 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جن میں سے 1 لاکھ 3 ہزار 93 افراد میں مرض کی تشخیص ہوئی ہے۔
کل 4 لاکھ 17 ہزار 649 ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جن میں سے بدھ کو 18 ہزار 665 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے۔ اس میں شمالی آیئرلینڈ کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
مزید برآں برطانیہ میں حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی تمام ہلاکتوں کو شمار نہیں کر رہی۔
بی بی سی کے مطابق برطانوی حکومت نے کورونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے سرکاری اعداد و شمار میں صرف ان اموات کو شامل کیا ہے جو ہسپتالوں میں ہوئی ہیں جبکہ کیئر ہومز میں مرنے والوں کو اس میں گنا نہیں جا رہا۔
پانچ مارچ کو پہلی ہلاکت کی سرکاری تصدیق کے بعد سے پانچ ہفتوں سے زائد عرصے میں یہ تعداد 10000 کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔
تاہم معمر افراد کے لیے کام کرنے والے فلاحی اداروں نے عوام کو ایک پریشان کن پیغام دیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار سے برطانیہ میں کورونا وائرس کی اصل شدت کا اندازہ نہیں ہو رہا۔
برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے سرکاری ریکارڈ کے لیے ان افراد کا کورونا ٹیسٹ ہونا ضروری ہے لیکن برطانیہ میں زیادہ تر صرف انہی مریضوں کے ٹیسٹ ہوئے جنہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ کیئر ہومز میں مرنے والے بیشتر معمر افراد کی گنتی نہیں کی گئی۔
ملازمتوں اور پینشن سے متعلق سیکرٹری ٹریسے کوفی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کے اعداد ہسپتال میں ہونے والی ہلاکتوں پر اس لیے مبنی ہیں کیونکہ یہ زیادہ مستند اور تیز تر ہیں۔
برطانیہ میں ٹیسٹ کٹس کی کمی ہے اور فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ کیئر ہومز میں ایسے آلات نہیں ہیں ہے کہ وہ معمر افراد کا علاج کر سکیں یا خود سے ٹیسٹ کر سکیں۔
ٹریسے کوفی کا کہنا تھا کیئر ہومز میں ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے اور حکومت حفاظتی کٹس بھی مہیا کر رہی ہے۔
تو ان کیئر ہومز میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی صورت حال کیا ہے؟ اور کم از کم وہاں کووڈ 19 سے ہونے والی ہلاکتوں کا کوئی اندازہ تو ہوگا؟
حکومت نے تصدیق کی ہے کہ انگلینڈ کے 2000 کیئر ہومز میں کورونا کی وبا پھیل چکی ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ان مقامات پر کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
فلاحی ادارے ’ایج یو کے‘ نے خبردار کیا کہ برطانیہ میں معمر افراد کے لیے قائم کیئر ہومز میں ’کورونا وائرس وحشی‘ ہو رہا ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر کیرولائن ابراہم کا کہنا تھا کے حکومتی اعداد سے لگتا ہے کہ معمر افراد کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
برطانیہ کے 11 ہزار 300 کیئر ہومز میں تقریباً 4 لاکھ 10 ہزار معمر افراد رہتے ہیں۔ اندازے کے مطابق برطانیہ میں کووڈ 19 کے باعث ہسپتالوں سے باہر ہونے والی ہلاکتوں کو شامل کرنے سے ہلاکتوں کی تعداد 11 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ برطانیہ میں اعداد و شمار باقی یورپی یونین کے اعداد کے نسبت کافی کم ہیں۔
برطانیہ میں بریفنگ کے دوران برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر پروفیسر کرس وِٹی سے ماسک پہننے سے متعلق سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر ورکرز اور کیئر ورکرز کے لیے ماسک پہننا کسی سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پیغام واضح ہے کہ جہاں ماسک کی بات آتی ہے وہاں فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو ترجیح حاصل ہے۔ لیکن سائنسی مشیر ماسک سے متعلق شواہد کا پھر سے جائزہ لے رہے ہیں۔
ماسک پہننے سے متعلق شواہد موجود ہیں کہ یہ ’کم مؤثر ہے‘ لیکن برطانیہ میں یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ماسک ان لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے جن میں علامات ہیں اور وہ لوگ جو متاثرہ افراد کی دیکھ بال کر رہے ہیں۔
برطانوی حکومت کے چیف میڈیکل آفیسر کرس وِٹی سے سوال بھی کیا گیا کہ سیاہ فام، ایشائی اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس وبا سے زیادہ متاثر کیوں ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پبلک ہیلتھ انگلینڈ کو اس معاملے کو تفصیل سے دیکھیں اور انھیں رپورٹ کریں۔
تحقیق کے مطابق برطانوی ہسپتالوں میں اس وائرس کی وجہ سے انتہائی بیمار مریضوں کی کل تعداد کا ایک تہائی حصہ اقلیتی برادرایوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔
کرس وِٹی کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ اقلیتی برادری کے افراد اس بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو رے ہیں۔
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان برادریوں کے افراد ’ کی ورکر‘ ہیں یا کم آمدنی والی ایسی نوکریاں کرتے ہیں جن میں وہ پبلک سے رابطے میں ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان میں وائرس پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ان برادریوں میں صحت کی وجوہات جیسے ذیابطیس اور بلڈ پریشر بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء سپین اور فرانس کے درمیان گھرا ہوا ملک اینڈورا کووڈ 19 سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جمعرات تک صرف 77 ہزار کی آبادی والے اس ملک میں مصدقہ مریضوں کی تعداد 673 ہے اور 33 اموات ہو چکی ہیں۔
سرکاری ترجمان کے مطابق ہر سال 60 لاکھ افراد اس چھوٹے سے ملک کا دورہ کرتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق سیاح ڈیوٹی فری شاپنگ اور سکیئنگ کی غرض سے آتے ہیں اور ملک میں انفیکشن کی شرح کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ ملک میں طبی عملے کی کمی کی وجہ سے حکومت نے مریضوں کے اعلاج کے لیے کیوبا سے 39 ڈاکٹر اور نرسوں پر مشتمل عملہ منگوایا ہے۔