ریاض: (ویب ڈیسک) سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل ہونیوالے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں مگر واضح کرنا چاہتا ہوں اس قتل کا حکم میں نے نہیں دیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے سی بی ایس نیوز کو ایک انٹرویو کے دوران 34 سالہ سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل ایک خوف ناک جرم تھا۔ سعودی عرب کے رہنما کے طور پر مکمل ذمے داری قبول کرتا ہوں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس قتل کے مرتکب ایسے افراد ہوئے، جو سعودی حکومت کے اہلکار تھے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018ء میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی عرب کے صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا ترکی کی حکومت نے تحقیقات کی اور کہا کہ قتل ہونے سے قبل سعودی عرب کی سکیورٹی اہلکاروں کی ٹیم وہاں پہلے سے موجود تھی۔ سعودی قونصل جانے کے فوراً بعد ان کا قتل کیا گیا، جس کے بعد سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے 11 کے قریب لوگوں پر مقدمہ چلانا شروع کیا، ان افراد میں ڈپٹی انٹیلی جنس چیف میجر جنرل احمد اسری سعود القحطانی بھی شامل تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں طاقتور ترین لوگوں میں شامل تھے۔
انٹرویو کے دوران شاہ سلمان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ان الزامات کی بھرپور اور پرزور تردید کرتے ہیں کہ اس قتل کا حکم مبینہ طور پر میں نے دیا تھا لیکن ان کا قتل ایک غلطی تھی۔ میری ریاست میں حکومت کے ماتحت 30 لاکھ کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ 30 لاکھ کے قریب لوگ اپنی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں مجھے بھیجیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں، لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ وہ درد برداشت نہیں کر سکتے جو حالیہ عرصے کے دوران ہم کر رہے ہیں۔
سی آئی اے کی رپورٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹوں کی اطلاع شائد ملی ہو لیکن اگر میرے متعلق کوئی ایسی بات ہے جو سعودی صحافی کے قتل کے مجھ پر الزام ثابت کرتی ہے تو اسے یقینی طور پر عوام کو دکھانا چاہیے۔ سعودی عرب میں کسی صحافی کو کوئی قتل کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں۔
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملے کے سوال کے جواب میں ولی عہد کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے سعودی عرب کی آئل انڈسٹری کے مرکز کو نقصانات نہیں پہنچا سکتے لیکن اس کے نقصانات عالمی سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں، حملے کی وجہ سے 5.5 فیصد تیل کی ایکسپورٹ رک گئی تھی جو امریکا، چین سمیت دیگر دنیا کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ سعودی آرامکو پر حملے کرنے کی ایرانی وجہ کیا ہو سکتی ہے کہ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ حملہ بہت بڑی حماقت ہے، اس حملے کاکوئی سٹرٹیجک مقصد نہیں، کوئی بڑا بیوقوف ہی دنیا کی 5.5 فیصد ایکسپورٹ آئل پر حملہ کرے گا۔
صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا کہ اگر سعودی عرب اور ایران کےدرمیان جنگ ہوتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہونگے کے جواب میں سعودی ولی عہدکا کہنا تھا کہ میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا خطے دنیا کو 30 فیصد کے قریب تیل مہیا کرتا ہے اور یہ دنیا کے 4 فیصد جی ڈی پی کے قریب ہے۔ جنگ ہوتی ہے تو آپ کو یقین کریں تیل کی ایکسپورٹ رک جائے گی اور دنیا کا جی ڈی پی بھی گراوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ مزید تصادم بڑھے گا، عالمی مفادات بھی خطرے میں پڑ جائیں گے، تیل کی رسد میں خلل پڑےگا، تیل کی قیمتیں ناقابل یقین حد تک بڑھ جائیں گی جو میں اپنی زندگی میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا کہ کیا اس مسئلہ کا حل فوجی رد عمل ہے جس کے جواب میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ میرا جواب نہیں ہے کیونکہ سیاسی اور پر امن مسائل کا حل بہت بہتر ہے فوجی رد عمل سے۔
حوثی باغیوں کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک ایران کو سب سے پہلے حوثی باغیوں کی مدد کرنا بند کرنا ہو گا، ہمیں اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنا ہو گا، ہم یمن کے تمام فریقیوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، مجھے یقین ہے یہ مذاکرات آج ہوں گے یا کل لیکن جلد ہو سکتے ہیں۔ یمن میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
خواتین کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ حال ہی میں خواتین نے کچھ حقوق جیتے ہیں جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی ہے، کچھ قوانین میں مزید تبدیلی ہو رہی ہے۔