لاہور: ( لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایچ ایس پناگ ) پاکستان کے ساتھ 90 گھنٹے تک جاری رہنے والی کشیدگی کا انجام بے عملی اور جمود بھارت کیلیے شکست کے مترادف ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 90 گھنٹے تک جو کشیدگی اور تصادم کی فضا جاری رہی اس کی وجہ سے ان اندازوں میں بہت تبدیلی رونما ہوگئی کہ اگر دونوں ممالک کے مابین تصادم کی فضا پیدا ہوئی تو بھارت کی جانب سے حکمت عملی کے حوالے سے تیاری کیسی ہوگی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے، یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ یہ صورتحال اڑی آپریشن کے برعکس تھی، کیونکہ اڑی آپریشن وزیر اعظم مودی کی جانب سے صورتحال کو تبدیل کرنے کی اولین کوشش تھی، اس کا بھی کوئی سٹریٹجک نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا، البتہ واقعہ بالاکوٹ کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔
پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کا پہلا اور فوری نوعیت کا سیاسی مقصد یہ تھا کہ وہ پاکستان کی حدود کے اندر دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے اہداف پر ‘‘ پیشگی حملوں ’’ کا سلسلہ شروع کر دے اور ان پیشگی حملوں کو ‘‘ معمول کی کارروائی ’’ قرار دے، بھارت کا خیال تھا کہ اس کی جانب سے پاکستان کے بارے میں پالیسی کی اس تبدیلی کو (بقول بھارت کے ) پاکستان کی جانب سے شروع کی گئی پراکسی وار یعنی بالواسطہ جنگ کا جواب سمجھا جائے گا۔ بھارت کا خیال تھا کہ وہ عالمی برادری کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ گو پاکستان بظاہر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شریک ہے لیکن اس نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا ہوا ہے، یہ تو تھے بھارت کے سیاسی مقاصد، ان کے علاوہ ایک جنگی مقصد بھی تھا، وہ یہ کہ بھارت اپنی جنگی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے، پاکستان کی جانب سے کوئی جوابی کارروائی ہو تو اسے پوری طاقت سے ناکام بنا دے، ‘‘ جارح ملک ’’ کو سنگین نقصانات سے دوچار کر دے اور جنگ کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کیلیے پوری طرح تیار رہے۔
دوسری جانب سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے پاکستان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ اپنی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا بھرپور تحفظ کیا جائے، اپنی عالمی اہمیت اور حیثیت کو برقرار رکھا جائے اور بھارت کی جانب سے من مانی کارروائیاں کر کے انہیں ‘‘ نئے معمولات ’’ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے، اس کے علاوہ پاکستان کا فوجی نصب العین یہ تھا کہ اگر بھارت اس پر ‘‘ پیشگی حملے ’’ شروع کرے تو بھارت کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کرکے نہ صرف اپنی جنگی طاقت کا لوہا منوائے بلکہ بھارت کو سنگین نقصانات پہنچا کر اسے بتا دے کہ پاکستان ‘‘ جیسے کو تیسا ’’ کے اصول پر عمل کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان کا ایک جنگی مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت پر اچھی طرح واضح کر دے کہ اگر بھارت نے جنگ چھیڑی تو پاکستان اس جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ اسے پھیلانے کی بھی پوری طاقت رکھتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تصادم کا ماحول اور کشیدگی 90 گھنٹوں تک جاری رہی، لیکن 26 فروری سے یکم مارچ تک جاری رہنے والی یہ دھماکا خیز اور سنگین صورتحال اچانک جمود اور بے عملی پر ختم ہوگئی، البتہ دونوں متحارب ممالک نے اس صورتحال سے جزوی طور پر اپنے سیاسی اور جنگی مقاصد حاصل کرلیے، گو کہ یہ صورتحال دونوں ممالک کے ساتھ رہی لیکن یہ بھارت کیلیے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ اب حالات کی جو صورت بنی ہے وہ بھارت کی جامع قومی سلامتی اور فوجی حکمت عملی پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔
بھارت نے کیا حاصل کیا ؟ بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں سفارتی سطح پر جو کامیابی ملی ہے وہ مستقل نہیں اور زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ کامیابی عارضی ثابت ہوگی، اس کا سبب ایک جانب پاکستان کا محل وقوع اور اس کی اسٹرے ٹیجک پوزیشن ہے تو دوسری جانب چین اور اسلامی ممالک کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات ہیں، مسئلے کا ایک اور بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا مجوزہ انخلا ایک بڑا معاملہ ہے اور اس میں پاکستان کا تعاون امریکا کیلیے ناگزیر ہے تشویش کا اصل سبب عسکری اعتبار سے دیکھا جائے تو حالیہ پاک بھارت مناقشہ پاکستان کی فضائی کارروائی کے باعث تعطل پر منتج ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے بھارت کی بالا دستی سے متعلق نفسیاتی خوف بھی بے وقعت ہوکر رہ گیا۔ اس کی وجوہ کا سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ طویل المیعاد بنیاد پر رسمی انداز سے تیار کی جانے والی حکمت عملی پر مبنی ہنگامی منصوبہ عمل میں لانے کے بجائے بھارت کی جوابی کارروائی ہنگامی بنیاد پر اور واقعاتی نوعیت کا تھا۔ ہم نے جامع جنگی یا دفاعی حکمت عملی تیار نہیں کی اور نہ ہی عسکری و تکنیکی سطح پر وہ برتری ہی یقینی بنائی ہے جو ایسی کسی بھی حکمت عملی کی بھرپور کامیابی کی ضمانت بن سکے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے سیاسی بڑبولے پن کے ریلے میں بہنے کے بعد نادانستگی میں قومی قیادت کی اس نااہلی کا اعتراف بھی کرلیا۔ 2 مارچ کو انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں انہوں نے کہا کہ بھارت رافیل (لڑاکا طیارہ) کی کمی محسوس کر رہا ہے۔ آج پورا ملک کہہ رہا ہے کہ رافیل طیارے ہوتے تو نتائج ممکنہ طور پر مختلف ہوتے۔ مودی نے وہی کہا جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ وزیر اعظم مودی ذرا بتائیں کہ صرف رافیل ہی کیوں، جدید ترین طرز کی رائفلز بھی تو مختلف اور مطلوب نتائج پیدا کرتی ہیں۔ آپ نے اپنی وزارت عظمٰی کی مدت کے ختم ہونے سے چند دن قبل ہی یعنی 3 مارچ کو امیٹھی (اتر پردیش) میں رائفل تیار کرنے والے یونٹ (پلانٹ) کا سنگ بنیاد بھی تو رکھا ہے۔ بالکل اسی طور جامع نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی، ہائر ڈیفنس منیجمنٹ، مسلح افواج کے ڈھانچے، تنظیم، اور جدت کاری کے حوالے سے اصلاحات بھی معرض التواء میں پڑی ہیں۔ بیس سال سے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس دوران کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی دو دو مرتبہ اقتدار میں رہی ہیں۔ تعطل ہی شکست ہے حالیہ چند دنوں کے دوران پاکستان نے ایک واضح تاثر کی حد تک ہم پر برتری پائی ہے اور یہ تاثر ملک کے اندر ہی نہیں، باہر بھی قائم ہوا ہے۔ آج کی انتہائی شفاف دنیا میں کوئی بھی حکومت کے ایسے گول مول بیانات پر بھروسہ نہیں کرسکتا جن کی پشت پر ٹھوس اور مستند شواہد ہی نہ پائے جائیں۔ سیاست دان ایک بار ریلیوں اور سیاسی تقریبات میں سیاسی سطح پر بڑھک مارکر کوئی خاص تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر جلد یا بدیر وہ اپنے طور پر اہداف کی گنتی بھی شروع کردیتے ہیں جیسا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت کے بیانات میں پائے جانے والے تضاد سے ظاہر ہے۔
گزشتہ پانچ برس کے دوران عوامی سطح پر کی جانے والی ہر بحث سیاست کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی قوم پرستی کے زیر اثر رہی ہے مگر اس کے باوجود ہم میں درد سہنے کی سکت بہت کم ہے، پاکستان سے تو خیر بہت ہی کم۔ پاکستان نے ہمارا جو پائلٹ پکڑا تھا اس پر جو کچھ بھی بیتی وہ پوری قوم کے اعصاب پر سوار ہوا۔ اس سے سیاسی اور عسکری سطح پر کیے جانے والے فیصلے بھی متاثر ہوئے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر ہم نے زیادہ فضائی حملے کیے ہوتے تو عسکری حکمت عملی کے اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہوتے۔ چند ہفتوں کے دوران جنگی جنون کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے لاگت کے اعتبار سے اس سے کہیں سستا آپشن بھی موجود ہے اور وہ ہے (مقبوضہ) جموں و کشمیر کے لوگوں (مسلمانوں) کے دل جیتنا۔
(لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایچ ایس پناگ نے بھارتی فوج میں چالیس سال تک خدمات انجام دیں۔ وہ سینٹرل ناردرن کمانڈ اور سینٹرل کمانڈ میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں آرمڈ فورسز ٹربیونل کا رکن بنایا گیا۔)