لاہور: (روزنامہ دنیا) ایسے وقت میں جب ایران نے خطے میں فوجی سر گرمیاں بڑھا دی ہیں، کئی عالمی تنازعات کے باعث تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، ایسے میں امریکہ نے اپنی ہوابازی کمپنیوں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ ایران کے اوپر سے پرواز نہ کریں۔
برطانوی اخبار ڈیلی ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی فہرست میں خطرناک ترین واقعات میں سے ایک وہ تھا جب گزشتہ سال دسمبر میں امریکی سول طیارے کو فائٹر جیٹ طیاروں نے ایران کی فضائی حدود میں روکا تھا۔ اس مشاورتی ادارے نے شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے بھی ایرانی فضائی حدود سے متعلق انتباہ جاری کیا تھا۔
صدرٹرمپ کے نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے اور ایران پر گزشتہ ماہ دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے متنازعہ فیصلے کی وجہ سے واشنگٹن اور تہران کے مابین کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایئرلائنز کمپنیوں کو پروازوں سے متعلق حفاظتی معلومات فراہم کرنیوالے ادارے فلائٹ سروس بیورو نے بغیر خبردار کئے مطلع کیا کہ ایرانی فضائی حدود سے پروازیں گزارنے کی منصوبہ بندی کرتے وقت واشنگٹن اور تہران کے بگڑے تعلقات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
اپنے کلائنٹس کو ای میل میں ایک امریکی گروپ نے کہا اگرچہ عراق کی فضائی حدود نومبر میں دوبارہ کھلنے سے روٹ کا اضافی آپشن مل گیا ہے، مگر خطے میں کوئی روٹ مکمل نہیں، آپریٹرز عراق یا ایران میں سے کسی ایک کو ترجیح بنانے سے پہلے غور ضرور کیا کریں۔ امریکی دفتر خارجہ اپنے شہریوں کو پہلے ہی ہدایت کر چکا ہے کہ حراست کے خدشے کے پیش نظر ایران کا سفر کرنے سے گریز کریں۔
فلائٹ سروس بیورو کے مطابق میڈیکل یا تکنیکی وجوہات پر ایران میں غیر متوقع لینڈنگ مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ عراق میں دہشت گردی کے خطرے اور مسلح کشمکش کے باعث اسی قسم کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔اسی خطرے کے پیش نظر فیڈرل ایوی ایشن نے دسمبر 2017 کے ہدایت نامے میں امریکی فضائی کمپنیوں کو 26 ہزار فٹ سے کم اونچائی کی اڑان سے روک دیا گیا تھا۔
ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالح کو امید ہے کہ تہران اور مغربی طاقتوں کے مابین نیوکلیئر ڈیل واشنگٹن کے نکلنے کے باوجود قائم رہ سکتی ہے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہو اتو ایران کا نیوکلیئر پروگرام پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ علی اکبر صالح جو صدر حسن روحانی کے نائب بھی ہیں، ان کے ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب ایران نیوکلیئر ڈیل کو بچانے کی کوشش میں ہے۔
ٹرمپ کے نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے ایران کی پہلے سے کمزور معیشت مزید مشکلات کا شکار ہے جبکہ اس کی کرنسی ریال کریش ہو چکی ہے، نومبر میں ایران کی پٹرولیم انڈسٹری پر مزید پابندیاں لگیں گی جوحکومت کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہے اس سے اعتدال پسند صدر روحانی پر دباؤ مزید بڑھ جائیگا۔ علی اکبر صالح کے مطابق صدر ٹرمپ طاقت کی منطق پر عمل پیرا ہیں وہ نقصان اٹھائیں گے ۔