لاہور: (ویب ڈیسک) کینسر ایک ایسا موذی اور مہلک مرض ہے جس کا شکار دنیا کی ایک بڑی آبادی ہر سال ہوتی چلی آرہی ہے، کینسر سے مرنے والوں کی تعداد امراض قلب کی اموات کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
اس بیماری کا اہم سبب بیڑی، سگریٹ، تمباکو، منشیات اور الکوحل کا استعمال ہے لیکن موجودہ آرام و آسائش بھی اس کے اسباب ہیں۔ فاسٹ فوڈ، تیارشدہ غذائی اشیاء، تیل، کھانوں کے پیکٹس، گرم کھانوں کیلئے پلاسٹک کا استعمال اور ماحولیاتی آلودگی بھی اس بیماری کے پھیلنے میں ممدومعاون ثابت ہورہی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق اس مرض کے 4 مراحل ہوتے ہیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں یہ قابل علاج ہے لیکن عام آدمی کیلئے اس کا علاج اتنا گراں بار ہے کہ یہ مریض کی جان سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوتا ہے اس لیے عموماً غریب آدمی اس بیماری سے جانبر نہیں ہوپاتا۔
کینسر کا مرض تیسرے یا چوتھے مرحلے میں لاعلاج ہوجاتا ہے اور مریض کی زندگی کے ایام کو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کینسر کے آثار 2 سے 5 سال قبل ہی شروع ہوجاتے ہیں اگر کسی شخص میں بیماری کی علامتیں دِکھنا شروع ہوجائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کینسر کی شروعات ہے اور فورا سے پیشتر سپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اگر سردی یا زکام سے جسمانی درجہ حرارت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ صحت مندی کی علامت نہیں ہے بلکہ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص کی قوت دفاع کمزور پڑرہی ہے۔ جسم کے سارے اعضاء اپنا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے رہے اور وہ نقصان دہ وائرس اور بیکٹیریا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ اگر رات کو ایک بجے سے تین بجے تک نیند ٹوٹتی ہے تو یہ جگرکے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے اور اگر رات تین بجے سے لے کر صبح پانچ بجے تک نیند ٹوٹتی رہتی ہے تو یہ پھیپھڑوں کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے، یہ صورت حال دو سے تین سال تک قائم رہ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ جسمانی تھکان کا احساس ہوگا اور وزن میں مسلسل کمی واقع ہوگی۔
آنتوں کے کینسر کی علامات میں لمبے وقت تک قبض کی شکایت رہنا اور رفع حاجت کی ضرورت محسوس نہ ہونا شامل ہے۔ یہ بیماری آنتوں کی لعابی جھلی میں جلن کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لمبی مدت تک تیل یا شکر والے کھانوں کے استعمال کے بعد بھی دانے یا پھوڑے نہیں نکلتے تو یہ بھی کینسر کی علامت ہوسکتی ہے۔ کینسر میں بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے اور بخار کا احساس ہمیشہ قائم رہتا ہے جبکہ مریض کا جسمانی درجہ حرارت معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ اس احساس کی شدت شام کے وقت بڑھ جاتی ہے، اسی طرح سے آنکھوں کی سفیدی والے حصہ میں خون کی شریان بغیر کسی آلہ کے صاف نظر آنے لگتی ہے۔
ایک محاورہ ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اسلیے ہمیں کھانے پینے میں ہمیشہ احتیاط برتنی چاہیے۔ صاف ستھرا، فلٹر کیا ہوا پانی پینا چاہیے، فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ اور فروزن اشیاء کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ مائیکرو ویواوون میں پلاسٹک کے برتن میں کھانا گرم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسکے لیے مخصوص برتنوں کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ منشیات، بیڑی، سگریٹ کا استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ صبح و شام ایک گھنٹہ چلنا چاہیے کیونکہ جب فرد صحت مند ہوگا تبھی معاشرہ بھی صحت مند ہوگا۔