تحریر: (محمد اقبال) ہم اداس ہوتے ہیں، شکست خوردہ محسوس کرتے ہیں، مختلف امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں اور روزمرہ سرگرمیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ لیکن عموماً یہ عارضی ہوتا ہے۔ اگر یہ علامات زیادہ عرصہ جاری رہیں تو ہو سکتا ہے کہ (شدید) ڈپریشن ہو۔
ڈپریشن ایک ذہنی بیماری ہے جو مریض کو درد و کرب میں مبتلا کرتی ہے۔ اس سے مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی گویا جہنم بن گئی ہے۔ وہ زندگی کے حسن اور رنگینیوں سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ دنیا کی سب سے عام بیماری ہے اور لوگوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ادارے کے اندازے کے مطابق دنیا میں 35 کروڑ افراد اس کا شکار ہیں۔ اس بیماری کے پیدا ہونے کی دو وجوہات ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک ماحول اور دوسرا جسم یا دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں۔ اس بیماری کا علاج تھراپی سے بھی ہوتا ہے اور ادویات سے بھی۔ ان دونوں طریقوں کو اکٹھا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرض کا شکار فرد سست رہتا ہے۔ وہ کام نہیں کرنا چاہتا ہے۔ وہ بہانے بازی کرتا ہے۔ دراصل اس سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس میں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ مریض چاہتے ہوئے بھی کام میں دلچسپی نہیں لے پاتا۔ اس لئے اسے دوش دینا اور اس پر تلخ و ہتک آمیز فقرے کسنا زیادتی ہے،گھر کا کوئی فرد جو چند ہفتے یا چند ماہ قبل ٹھیک طرح سے ہر کام انجام دے رہا تھا، کام کرنے سے انکار کرنے لگے تو اسے ڈانٹنے اور کوسنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجائے ہمدردی اور پیار سے اس کی بات اور فریاد سننی چاہی، اسے توجہ دینی چاہیے۔ اگر اس کی یہ کیفیت قدرے طویل ہو تو اسے کسی ماہر معالج کے پاس لے کر جانا چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کو قابو میں رکھیں، اس طرح وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن شدید ڈپریشن کی صورت میں اکثر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح بخار کو محض سوچ سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شدید ذہنی امراض کو مرضی سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔
ڈپریشن میں بہت سے خیالات کو انسان اپنے ذہن سے نہیں نکال پاتا۔ اسے بہتری اور بحالی کے لیے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا دل مضطرب ہوتا ہے۔ اس کے خیالات میں تسلسل باقی نہیں رہتا اورکیفیت میں تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ رشتہ داروں، عزیز و اقارب کو سمجھ لینا چاہئے کہ اسے مدد اور سہارے کے علاوہ معالج کے مشورہ اور ادویات کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لئے دوائیاں استعمال کرنے کے بعد مریض ان کا عادی ہو جاتا ہے۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن اچھے ماہر اول تو ایسی ادویات سے پرہیز کرتے ہیں دوم علاج اس انداز سے کرتے ہیں کہ مریض ادویات کا عادی نہ ہو۔ نیز صرف ادویات کی نہیں بالکل بیرونی ماحول کو بدلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام خاندان کے افراد، دوست اور اردگرد کے دوسرے افراد کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات مریض کی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ ادویات کے استعمال کے سوا چارہ نہیں رہتا۔
اِن دوائیوں کے استعمال سے دماغ میں کیمیائی عمل شروع ہونے سے مریض کی زندگی میں خوشی واپس لوٹنے لگتی ہے اور وہ پھر سے روزمرہ کے کاموں میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ اس بیماری میں موروثی، نفسیاتی، ذہنی، سماجی اور تمدنی عوامل شامل ہیں۔ مریض کے نزدیکی رشتہ داروں کو چاہئے کہ نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے میں اس کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ وہ حالات کا مقابلہ کر سکے۔