اسلام آباد: (دنیا نیوز) جسٹس یحییٰ آفریدی نے پاکستان کے 30 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی تقریب حلف برداری ایوان صدر میں ہوئی جہاں صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے عہدے کا حلف لیا۔
تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، سپیکر قومی اسمبلی، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور، گورنر کے پی فیصل کریم، گورنر پنجاب سلیم حیدر، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور وفاقی وزراء بھی شریک تھے۔
ان کے علاوہ حلف برداری کی تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک سمیت دیگر ججز کے علاوہ سینئر وکلا سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک ہوئے۔
واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان کیلئے نامزد کیا تھا۔
ویب سائٹ اپ ڈیٹ
ادھر نئے چیف جسٹس کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ بھی اپڈیٹ کر دی گئی ہے، ویب سائٹ پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام چیف جسٹس پاکستان کے طور پر اپڈیٹ کر دیا گیا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زندگی پر ایک نظر
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی 23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق کوہاٹ کے آدم خیل قبیلے سے ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنی ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن مکمل کیا، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز اور کامن ویلتھ سکالرشپ پر کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 1990 میں اپنے قانونی کیریئر کا آغاز کیا اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے، وہ خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے، 2010 میں انہیں پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا اور 2016 میں وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے جبکہ 2018 میں انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے کیریئر کے دوران کئی اہم مقدمات کی سماعت کی ہے اور کئی فیصلے دیئے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور سپریم کورٹ کے تیسرے جج جسٹس اطہر من اللہ ایک ہی لا فرم میں پارٹنر بھی رہے ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور بعد ازاں جب آرٹیکل 6 کے تحت بننے والی خصوصی عدالت جس میں پرویز مشرف کا مقدمہ چل رہا تھا انہیں اس تین رکنی بنچ کا سربراہ بنایا گیا تو پرویز مشرف کے وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف درخواست گزار رہ چکے ہیں اس لیے وہ یہ مقدمہ نہیں سن سکتے، بعدازاں جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو اس مقدمے سے الگ کر لیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں اکثریتی 8 ججوں کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور اپنا اختلافی نوٹ بھی جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بنچ کا حصہ بھی رہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی 3 رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے والد عمر خان آفریدی پولیٹیکل ایجنٹ (پی اے) سابقہ ساؤتھ وزیرستان ایجنسی (1968-1971) کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، عمر خان آفریدی نے فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا اور بعد ازاں سول سروسز میں ٹرانسفر ہو گئے۔