مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض

Published On 11 October,2024 12:56 pm

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) آج کے نفسانفسی کے عالم میں اور دنیاوی مصروفیات اور زندگی کے تیز رفتار سفر کی وجہ سے مسلمان کی توجہ باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض سے ہٹ جاتی ہے، بسا اوقات انہیں بھول ہی جاتا ہے یا یہ خیال کرتے ہوئے توجہ نہیں کرتا کہ میں یہ کمی، کوتاہی اور تعلقات میں سرد مہری بعد میں ختم کر دوں گا۔

پھر اسی اُمید پر سالہا سال گزر جاتے ہیں اور عمر بیت جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوری بڑھتی جاتی ہے اور دراڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں، اِسلام محبت، بھلائی، سچائی، اِخلاص، اِیثار، خیر خواہی اور ہمدردی والا دین ہے، اسلام دشمنیوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے والا دین ہے، اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ نے محبتوں کا انقلاب برپا کیا جس کی وجہ سے دشمن بھائی بھائی ہوگئے، رسول اکرمﷺ نے مسلمانوں کو باہمی محبت میں ایسا یکجا کیا کہ وہ مختلف ہوتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔

اسلام نے سماجی تعلقات کو بھرپور اہمیت دی، سماجی تعلقات پر اتنا اجر بیان کیا کہ تعلقات میں پہل کرنے کی ترغیب ملے، تاکہ دل آپس میں جڑ جائیں، باہمی تعلقات گہرے ہوں، ایک دوسرے کی ضروریات پوری ہوں، معاشرے کے سب افراد اچھے اخلاق اور بہترین تعامل کو فطرت ثانیہ بنا لیں، پھر میزان بھی نیکیوں سے بھر جائے اور درجات بھی بلند ہو جائیں۔

مسلمان کی مثال
حضرت نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم اہل ایمان کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے سے شفقت کے ساتھ پیش آنے میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جس کے ایک عضو کو اگر تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے قرار ہو جاتا ہے، اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 6011)۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مومن (دوسرے) مومن کیلئے عمارت کی مانند ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت دیتا ہے اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں میں پنجہ ڈال کر بتلایا‘‘ (صحیح بخاری: 6026)۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو ظالم کے حوالے کرے گا (کہ وہ اس پر ظلم کرے)، اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے اس کی مصیبت کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت اس سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 6951)

عصر حاضر میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اکثر مسلمان نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے بے خبر ہوگئے ہیں، نفسانفسی کا عالم ہے، اِخلاص و اِیثار، جذبہ و قربانی، محبت و بھلائی اور ہمدردی و خیر خواہی کے اَوصاف سے خالی نظر آتے ہیں جبکہ اخوت و محبت کا ابتدائی تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی جان ومال کا احترام کرے

جان کی بھلائی اور ہمدردی تیمارداری اور عیادت سے شروع ہوتی ہے کہ جب کوئی عزیز رشتہ دار یا مسلمان بھائی بیمار ہو تو اُس کی تیمار داری کی جائے، بھوکا ہو تو کھانا کھلایا جائے، اگر مشورہ طلب کرے تو اچھا مشورہ دیا جائے، فوت ہو جائے تو جنازہ کا اہتمام کیا جائے، کوئی کسی کام کو کرنے کی قسم کھا لے تو اس کو پورا کرنے میں اس کی مدد کی جائے، مظلوموں کی مدد کی جائے، جب باہمی حقوق ادا کئے جائیں تو تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، جن کی بدولت مضبوط، آہنی اور گہری بنیادوں والا مسلمان معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

مسلمانوں کے باہمی حقوق
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’(ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حقوق ہیں (1) سلام کا جواب دینا، (2) بیمار کی عیادت کرنا، (3) جنازوں کے ساتھ جانا، (4) دعوت قبول کرنا اور (5) چھینک کا جواب دینا (صحیح بخاری:1240)، یہ اِسلامی حقوق، مسلمان فاسق ہو یا متقی سب کو برابر حاصل ہیں۔

حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے سات کام کرنے کا حکم فرمایا: (1) مریض کی عیادت کرنے کا، (2) جنازوں کے ساتھ جانے کا (3) چھینکے والے کو جواب دینے کا، (4) سلام کا جواب دینے کا، (5) دعوت قبول کرنے کا، (6) قسم والے کو بری کرنے کا (اگر کوئی مسلمان آئندہ کیلئے ایسی قسم کھائے جو تم کر سکتے ہو تو ضرور کر دو تاکہ اُس کی قسم پوری ہو جائے) اور (7) مظلوم کی مدد کرنے کا (صحیح بخاری: 2445)۔

درج بالا دو احادیث ِمبارکہ میں کل آٹھ حقوق و فرائض بیان کئے گئے ہیں، جن میں پانچ مشترک ہیں مثلاً سلام کرنا، چھینک کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، عیادت کرنا اور جنازے کے ساتھ جانا جبکہ تین مختلف ہیں (1)خیر خواہی کرنا، (2) قسم پوری کرنے میں مدد کرنا، (3) مظلوم بھائی کی مدد کرنا، یہ احادیث مبارکہ مسلمانوں کی باہمی تعلق داری اور محبت کے آفاق کو عیاں کرتی ہے، ان حقوق و فرائض کی وضاحت درج ذیل ہے۔

پہلا حق: سلام کا جواب دینا
ایک مسلمان کا دوسرے پر اوّلین حق محبت اور مودت پر مبنی دعائیہ جملہ ہے جو کہ اہل جنت کا سلام بھی ہے، رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو، کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو، آپس میں سلام عام کرو‘‘ (صحیح مسلم: 54)۔

سلام دلوں میں محبت سرایت کرنے کا ذریعہ ہے تو کسی بھی دروازے پر اجازت لینے کا سلیقہ بھی، سلام زندگی کو برکت، ترقی اور فروغ دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنوں کو سلام کہا کرو، یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے‘‘ (سورۃ النور: 61)

رسول اللہﷺ کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزو لا ینفک بنا لیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگا سکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں، حضرت ابن عمرؓ مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے۔

ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپؓ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپؓ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپؓ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہﷺ کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمرؓنے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کیلئے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰۃالمصابیح:400)

دوسراحق: کھانے کی دعوت قبول کرنا
مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ ’’مسلمان کی کھانے پر دعوت قبول کرے، اس کی خوشی میں شریک ہو، دعوتوں کے تبادلے سے باہمی اُلفت کو فروغ ملتا ہے، ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع بنتا ہے، جس کی بدولت مسائل بھی ختم ہو جاتے ہیں اور دوست و احباب کے مابین ناراضگیاں ختم ہوتی ہیں۔

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے ’’اگر مجھے بکری کے پیر کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا، اگرمجھے بکری کا پایہ ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کروں گا‘‘ (صحیح بخاری: 5178)، یعنی ایک غریب انسان بھی کسی معمولی چیز کی دعوت کرے، تو بھی ایک مسلمان کی قدرکرتے ہوئے اس کی دعوت کو قبول کروں گا۔

دعوت کی قدر و قیمت دعوت پر کئے جانے والے خرچے نہیں بلکہ دعوت کا مقصود باہمی بھائی چارے اور مسلمانوں کے آپس میں رابطے سے پورا ہو جاتا ہے، جبکہ دعوتوں میں فضول خرچی یکسر قابل ستائش عمل نہیں ہے، یہ شریعت کے منافی ہے، فضول خرچی سے برکت مٹ جاتی ہے، جیسا کہ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا‘‘ (سورۃ الاعراف:31)۔

تیسرا حق: جنازہ میں شرکت کرنا
جب آپ ان حقوق پر غور کریں کہ یہ متنوع اور با مقصد ہیں تو آپ کو یقینی طور پر علم ہو جائے گا کہ مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر ایسے حقوق بھی ہیں جو اس کی وفات تک جاری و ساری رہتے ہیں، بلکہ وفات کے بعد بھی کچھ حقوق ہیں کہ اس کے جنازے کے ساتھ جائیں اور اس کیلئے دعا کریں، یہ مسلمان کی تکریم اور اظہار شان ہے، دوسری جانب اس سے وفا کی منظر کشی بھی ہے، در حقیقت یہی مسلمانوں کے مابین اخوت کا تقاضا بھی ہے۔

چوتھا حق: چھینک کا جواب دینا
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور آپؑ کے اندر روح پھونکی تو حضرت آدم علیہ السلام کو فوراً چھینک آئی اور سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے چھینک پر ’’ا لحمدللہ‘‘ فرمایا، چھینک آنا اچھی بات ہے، چھینک انسان کی صحت کی علامت ہے، اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں‘‘ (صحیح بخاری:6223)۔

پانچواں حق: تیمارداری کرنا
اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسا بھی ممکن ہے کہ بیماری ہفتوں اور مہینوں تک لمبی ہو جائے، بیماری کے باعث نہ آنکھیں آرام کر سکیں اور نہ ہی ذہن کو سکون ملے، درد اور الم سے کڑھتا اور کروٹیں ہی لیتا رہے، مریض شخص کو ایسی مقبول دُعا کی تمنا ہوتی ہے جسے قبول کر کے اللہ تعالیٰ مریض کو شفا یاب فرما دے۔

مریض کو ایسی تیمار داری کی چاہت ہوتی ہے جس سے اس کی تکلیف کم ہو جائے، ایسے بول کی ضرورت ہوتی ہے جو پریشانی میں غمگسار بن جائے، ایسے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو بھائیوں کے قریب ہونے کی اطلاع دے، مریض کی عیادت کرنا ہر مسلمان کا اخلاقی فریضہ ہے۔

متعدد احادیث مبارکہ میں رسول کریمﷺ نے مریض کی عیادت کا حکم ارشاد فرمایا اور اس کے فضائل بھی بیان کئے، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو، قیدی کو رہا کراؤ‘‘ (صحیح بخاری: 5373)۔

علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال لکھتے ہیں: ’’مریض کی عیادت کرنا سنت مرغوبہ ہے، جنازوں کے ساتھ جانا فرض کفایہ ہے، چھینک والے کے جواب میں اختلاف ہے کہ فرض کفایہ ہے یا سنت ہے، دعوت کو قبول کرنا سنت ہے اور ولیمہ کو قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے اور قسم کھانے کی قسم کو پورا کرنا جہاں تک ممکن ہو مباح ہے اور سلام میں ابتدا کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے‘‘ (شرح ابن بطال، ج6، ص472)۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔







×

آپ کی رائے

کیا چھوٹے صوبوں کا قیام پاکستان میں بہتر حکمرانی اور ترقی کے لیے ضروری ہے