اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف مشکلات کے گرداب میں نظر آ رہی ہے، پی ٹی آئی اور اس کے بانی کیلئے یہ معاملہ گلے کی ہڈی بن چکا ہے جو نگلا جا رہا نہ اگلا، بانی پی ٹی آئی کبھی فیض حمید کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔
ایک طرف وہ فیض حمید کو اثاثہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے کوئی تعلق نہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا فیض حمید سے رابطہ صرف اُس وقت تک رہا جب تک وہ ڈی جی آئی ایس آئی اور وہ خود وزیر اعظم پاکستان تھے، جیسے ہی فیض حمید ریٹائر ہوگئے ان کا نہ تو اُن سے رابطہ تھا نہ ہی تعلق، معاملے پر گومگو کے شکار بانی پی ٹی آئی نے اب فیض حمید کے خلاف ٹرائل کو اوپن کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنرل (ر) فیض حمید کا اوپن ٹرائل کیا جائے، اس ٹرائل میں میڈیا کو بھی کوریج کی اجازت دی جائے، انہوں نے کہا کہ اوپن ٹرائل کا مطالبہ اس لیے کر رہا ہوں تاکہ سارے راز اور سازشیں بے نقاب ہو جائیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا، 9 مئی کے حقائق بھی سامنے آجائیں گے۔
بانی پی ٹی آئی نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ایک سابق وزیر اعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے گا، بانی پی ٹی آئی کے فیض حمید سے متعلق بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ ذرائع نے اس پر سخت ردعمل دیا اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی کون ہوتے ہیں جو بتائیں کہ فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں ہوگا یا نہیں، اگر بانی پی ٹی آئی کا اس معاملے میں ٹرائل ہوا تو وہ تسلی رکھیں کہ اوپن میں ہی ہوگا تاکہ ساری دنیا کو پتہ چلے کہ وہ کیا کرتے اور کرواتے رہے۔
اس بیان کی صورت میں فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی سے متعلق پہلا بڑا اور سخت ردعمل سامنے آیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہونے جا رہا ہے، بانی پی ٹی آئی اگرچہ فیض حمید کے ساتھ تعلق کی اونرشپ نہیں لے رہے مگر ان کی گفتگو اور انداز بتا رہا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری ان کیلئے پریشانی کا بڑا سبب بن چکی ہے، انہیں یہ ادراک بھی ہے کہ 9 مئی سے متعلق فیض حمید پر لگنے والے الزامات معاملات کو کہاں لے جا سکتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے خلاف ٹرائل کو متنازع بنانے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔
قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ فیض حمید 9 مئی سمیت دیگر معاملات میں وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں، پاک فوج فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا اعلان کر چکی ہے مگر بانی پی ٹی آئی اس معاملے کو کسی اور رنگ میں رنگنے میں مصروف نظر آتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح وہ اس عمل کو متنازع بنا کر اسے سیاسی انتقام کا رنگ دے سکیں، بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرنے والی قانونی ٹیم بھی انہیں بتا چکی ہے کہ اگر فیض حمید کچھ معاملات میں وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں تو بانی پی ٹی آئی اور جماعت کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
دوسری جانب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے معاملہ کو حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ نظام الزامات کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاً ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے، متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ فوج کے اس احتسابی عمل میں کسی عہدے یا دیگر عوامل کی بنا پر کوئی تفریق نہیں رکھی جاتی، فیض حمید کیس پر نظر ڈالی جائے تو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں وزارت دفاع کے ذریعے اپریل 2024ء میں پاک فوج کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی کورٹ آف انکوائری کو تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔
تفصیلی انکوائری مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024ء کو بذریعہ پریس ریلیز آئی ایس پی آر نے نے بتایا کہ دیگر الزامات کے علاوہ فیض حمید پر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور انہیں فوجی تحویل میں لیا گیا، اس کے بعد تین سینئر ریٹائرڈ افسروں جن میں دو بریگیڈیئر اور ایک کرنل شامل ہیں کو بھی ملٹری تحویل میں لیا گیا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ فیض حمید نیٹ ورک سے جڑے مزید کئی افراد کی گرفتاری کے امکانات بھی موجود ہیں، اس تمام سہولت کار نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالنے سے قبل بھی کئی ماہ تک ٹھوس شواہد اکٹھے کئے گئے، ملٹری قوانین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایس پی آر کی 12 اور 15 اگست کی پریس ریلیز میں بڑے واضح اشارے ہیں، فیض حمید اور دیگر کے خلاف کارروائی شواہد کی روشنی میں الزامات ثابت ہونے کے بعد ہی شروع کی گئی، پاک فوج کا ایک ریٹائرڈ آفیسر دو سال تک جبکہ حساس ادارے کا آفیسر پانچ سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کا مجاز نہیں۔
فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کو ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے اور ایسے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا سنگین جرم ہے، اس معاملے پر آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 لاگو ہو سکتا ہے جو حکومت گرانے کی سازش ، منصوبہ بندی اور بغاوت کے جرائم سے متعلق ہے۔
متعلقہ حکام کا بتانا ہے کہ پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل تیزی سے کام کرتا ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا حق دیا جاتا ہے، قانون اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، جنرل (ر) فیض حمید اور ان سے جڑے کئی افراد کی گرفتاریوں کا معاملہ آنے والے دنوں میں سیاست کے میدان میں کیا کیا بھونچال لائے گا، بڑی ہلچل ابھی سے دکھائی دینے لگی ہے، تاحال نہ تو یہ فیصلہ ہو سکا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ میں چلایا جائے نہ ہی فیض حمید کے وعدہ معاف گواہ بننے سے متعلق کوئی پیشرفت ہے۔
یہ کیس سیاسی نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور آئی ایس آئی چیف کے غیر قانونی طور پر سیاست میں ملوث ہو کر ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے کے ٹھوس ثبوتوں سے متعلق ہے، ان کے عزائم میں کون کون شریک کار تھا، پردہ جلد اٹھنے والا ہے اور بہت سے لوگ اسی بنا پر ابھی سے خوف کا شکار نظر آ رہے ہیں۔