لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) ارکان اسلام میں حج آخری رکن ہے لیکن من جملہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی معراج کا نام حج ہے کیونکہ جسمانی، روحانی اور مالی عبادت کا مرقع حج ہے، جس میں نماز کی حرکات و سکنات، زکوٰۃ کی شکل میں انفاق فی سبیل اللہ اور صوم کی صورت میں تلذذ نفسانی کی بیخ کنی کی گئی ہے۔
انہی تمام صورتوں کا مجموعہ اللہ تعالیٰ نے حج کی شکل میں عطا فرما دیا، شعائر اللہ کی صورت میں انبیاء کی مختلف یادگاروں کو مناسک حج میں قائم فرما دیا، اللہ جل شانہ نے محبت کرنے والوں کو ان عظیم یادگاروں کی طرف قصد کرنے کا حکم فرمایا: ’’اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘ (سورۃ الحج: 32)۔
مکہ معظمہ میں کعبۃ اللہ اور مضافات میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺ تک اکثر انبیاء کرام علیہ السلام کی محبت الہٰی میں کیفیات موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان جگہوں پر اسی انداز و شکل میں ان یادگاروں کو قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا، نماز، روزہ اور زکوٰۃ جیسی عبادات دنیا میں ہر جگہ ادا ہوتی ہیں لیکن حج جیسی عبادت کیلئے پروردگار عالم نے خاص جگہ کا تعین فرما دیا۔
حج کی فرضیت واہمیت
خالق کائنات نے انسان کی تخلیق کے بعد اس پر بے شمار احسانات فرمائے، اس کی پیدائش سے لے کر مرنے تک بلکہ مرنے کے بعد بھی بے حساب انعامات اس کیلئے مختص کر دیئے، تاہم ان کا حصول اس کی سعی اور جدوجہد سے مشروط کر دیا، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ جیسا سبب ہوگا ویسا ہی مسبب ہوگا۔
انہی انعامات میں سے ایک انعام بندہ کی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزری ہے، جس کے اللہ تعالیٰ نے لاتعداد طریقے بیان فرمائے، جن میں ایک عظیم طریقہ حج بیت اللہ ہے جو انسان کو ایسے گناہوں سے پاک کر دیتا ہے، تاہم اس میں بھی نیت صالح اور مال حلال شرط ہے، ذیل میں ہم حج کے چند بنیادی شرعی مسائل بیان کر رہے ہیں۔
حج کی فرضیت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ کیلئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو اور جو (اس کا) منکر ہو تو بیشک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے‘‘ (آل عمران: 97)، اس آیت کریمہ میں حج کی فرضیت اور شرطِ فرضیت یعنی استطاعت کو بیان کیا گیا ہے، ساتھ یہ وعید کی گئی ہے کہ جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
حضرت ابو اُمامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو سواری اسے بیت اللہ تک پہنچا دے اور وہ پھر بھی حج نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر‘‘ (جامع ترمذی:812)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا ۔ وہ عرض کرتی ہیں ’’یا رسول اللہﷺ! یہ (حج) اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے لیکن میرے والد محترم اتنے بوڑھے ہیں کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، ایسے میں کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں کر سکتی ہو‘‘ (بخاری: 4138) ۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا ہم آپﷺ کے ساتھ نکل کر جہاد نہ کریں کیونکہ میں قرآن مجید میں جہاد سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں پاتی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں تمہارے لیے بہتر اور افضل جہاد حج مبرور ہے‘‘ (النسائی:2628)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ اپنے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘(صحیح بخاری: 1683)
اِن احادیث سے حج کی فضیلت آشکار ہوتی ہے، رسول اللہﷺ نے مقبول حج کا ثواب جنت قرار دیا ہے، علامہ ابن حجر لکھتے ہیں حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ نہ ہو، بعض شارحین حدیث کا قول ہے کہ جس میں ریا اور نمود ونمائش نہ ہو وہ حج مبرور ہے، بعض کہتے ہیں حج مبرور وہ حج ہے جس کے بعد گناہ نہ ہو (فتح الباری، ج 4، ص329)
حج کی شرائط
حج کے واجب ہونے کی شرائط مقرر ہیں، اگر وہ شرائط پائی جائیں توحج واجب ہوگا، بصورت دیگر نہیں۔ (1) مسلمان ہونا، (2) بالغ ہونا، (3) عقلمند ہونا، (4)آزاد ہونا، (5) تندرست ہونا، (6) اخراجات کی طاقت ہونا، (7) راستے میں امن و امان ہونا، (8) جان کا خوف نہ ہونا، (9) عورت کا حالت عدت میں نہ ہونا، (10) عورت کیلئے شوہر یا محرم کا ساتھ ہونا۔
حج کے فرائض
حج میں چھ چیزیں فرض ہیں۔ شیخ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں: (1)احرام، (2)وقوف عرفہ، (3)طواف زیارت کے چار چکر لگانا،(4)طواف کی نیت ہونا، (5) فرائض کے درمیان ترتیب قائم رکھنا( پہلے احرام باندھنا پھر وقوف اور پھر طواف کرنا)، (6)ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا، (7) مکان یعنی ’’وقوف‘‘ عرفات کی سر زمین پر ہونا اور طواف مسجد حرام میں کرنا۔
حج کے واجبات
شیخ رحمت اللہ سندھی نے جو واجبات حج لکھے ہیں وہ درج ذیل ہیں: (1) میقات سے احرام باندھنا، اگر میقات سے پہلے احرام باندھ لیا تو بھی جائز ہے ،(2) صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا،(3) سعی کو صفا سے شروع کرنا، (4) عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا، (5) دن میں وقوف کیا تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب ڈوب جائے اور اگر رات میں وقوف کیا تو اس کیلئے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اُس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب تک وقوف کرتا۔
(6) وقوف میں رات کا کچھ جز آ جانا ( 7) عرفات سے واپسی میں امام کی متابعت کرنا یعنی جب تک امام وہاں سے نہ نکلے یہ بھی نہ چلے، اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اُسے امام سے پہلے چلا جانا جائز ہے، اگر بھیڑ یا کسی ضرورت سے امام کے چلے جانے کے بعد ٹھہر گیا ساتھ نہ گیا جب بھی جائز ہے،(8) مزدلفہ میں ٹھہرنا، (9) مغرب و عشا کی نماز، عشا مزدلفہ میں پڑھنا،(10) تینوں جمروں پر دسویں، گیارہویں، بارھویں کو کنکریاں مارنا یعنی دسویں کو صرف جمرہ العقبہ پر اور گیارہویں بارھویں کو تینوں پر رَمی کرنا۔
(11) جمرہ عقبہ کی رَمی پہلے دن حلق سے پہلے ہونا، (12) ہر روز کی رَمی کا اُسی دن ہونا،(13) سر مونڈوانا یا بال کتروانا، (14) ایام نحر اور (15) حرم شریف میں ہونا اگرچہ منیٰ میں نہ ہو۔ (16) قِرآن اور تمتع والے کو قربانی کرنا،(17) اس قربانی کا حرم اور ایامِ نحر میں ہونا، (18) طوافِ افاضہ کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہونا (عرفات سے واپسی کے بعد جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طوافِ اِفاضہ ہے، طوافِ زیارت بھی کہتے ہیں، (19) طواف حطیم کے باہر سے ہونا، (20) داہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کی بائیں جانب ہو۔
(21) عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا،(22) طواف کرنے میں نجاست حکمیہ سے پاک ہونا، یعنی جنبی و بے وضو نہ ہو،(23) طواف کرتے وقت ستر چھپا ہونا، نماز میں ستر کھلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے وہاں دَم واجب ہوگا، (24) طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، نہ پڑھی تو دَم واجب نہیں، (25) کنکریاں پھینکنے اور ذبح اور سر منڈانے اور طواف میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں پھینکے پھر غیر مْفرِد قربانی کرے پھر سر منڈائے پھر طواف کرے۔
(26) طواف صدر یعنی میقات سے باہر کے رہنے والوں کیلئے رخصت کا طواف کرنا، اگر حج کرنے والی حیض یا نفاس سے ہے اور طہارت سے پہلے قافلہ روانہ ہو جائے گا تو اس پر طوافِ رخصت نہیں، (27) وقوف عرفہ کے بعد سرمنڈوانے تک جماع نہ ہونا،(28) احرام کے ممنوعات سے بچنا (لباب المناسک للسندی، ص68-73)
حج سے قبل کئے جانے والے امور
حج کی ادائیگی سے قبل یا دوران حج جن امور کو سر انجام دینا اور ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، وہ درج ذیل ہیں: خرچ میں وسعت اختیار کرنا، ہمیشہ با وضو رہنا، فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا، والدین سے اجازت لے کر حج کیلئے جانا، قرض خواہ سے بھی اجازت طلب کرنا، اپنی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر نکلنا، لوگوں سے کہا سنا معاف کرانا، صدقہ و خیرات کرنا، گناہوں پرسچی توبہ کرے۔
جن لوگوں کے حقوق چھین لیے تھے وہ واپس کر دے، اپنے دشمنوں سے معافی مانگ کر ان کو راضی کرے، جو عبادات فوت ہو گئیں (مثلا جو نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں) ان کی قضا کرے، اپنی نیت کو ریاکاری سے مبرا کرے، حلال سفر خرچ کو حاصل کرے، راستہ میں گناہوں سے بچتا رہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔
احرام کی حالت میں ممنوع امور
(1) شکار کرنا، شکاری کی مدد کرنا، (2) حدودِ حرم میں درخت، گھاس، پودے وغیرہ کاٹنا یا مکھی، مچھر، جوں وغیرہ مارنا، (3) جسم سے کوئی بال توڑنا یا ناخن تراشنا، (4) سلے ہوئے کپڑے پہننا مثلاً قمیص، شلوار یا ٹوپی وغیرہ، (5) خوشبو کا استعمال کرنا، مثلاً خوشبودار صابن سے نہانا یا خوشبودار سرمہ لگانا یا کھانے پینے کی اشیاء میں خوشبو کا استعمال کرنا۔ (6)مرد کیلئے سر اور چہرے کا چھپانا اور عورت کیلئے چہرے پر کپڑے کا مس ہونا (البتہ عورت کیلئے سر ڈھانپنا ضروری ہے)، (7) میاں بیوی کا ازدواجی تعلق قائم کرنا۔
متفرق ضروری مسائل
میقات : وہ آخری مقام جہاں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کا احرام کے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں، میقات کہلاتا ہے، حدودِ حرم سے پہلے جن مقامات کو نبی اکرم ﷺ نے میقات مقرر فرمایا وہ پانچ ہیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اہل مدینہ کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحُلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جُحفہ ہے، اہل عراق کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذاتِ عرق ہے، اہل نجد کیلئے قرن المنازل ہے اور اہل یمن کیلئے یَلَملَم ہے (صحیح مسلم : 1183)۔ پاکستانیوں کا میقات یَلَملَم ہے، جو جدہ سے پہلے آتا ہے۔
احرام: حج یا عمرہ کی باقاعدہ نیت کر کے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے احرام کہتے ہیں، اس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا، یعنی ایک چادر نئی یا دھلی ہوئی اوڑھنے کیلئے اور ایسا ہی ایک تہہ بند کمر پر لپیٹنے کیلئے، مرد احرام میں سلا ہوا کپڑا نہیں پہن سکتا لیکن عورت کو جائز ہے کہ وہ سلے ہوئے کپڑے پہنے البتہ اپنا چہرہ کھلا رکھے گی، سر پر دوپٹہ اوڑھنا لازم ہے، مرد کپڑے سے دونوں کو نہیں ڈھانپ سکتا۔
بغیر احرام باندھے میقات سے گزرنا: اگر کوئی شخص بغیر احرام باندھے میقات سے گزر جائے تو وہ گنہگار ہوگا اور دَم دینا واجب ہوگا، اگر وہ شخص پانچ میقاتوں میں سے جہاں آسانی سے لوٹ سکتا ہے، واپس آئے اور احرام باندھ لے تو دَم ساقط ہو جائیگا۔
دورانِ احرام بال ٹوٹنا: اگر وضو کرتے، سر کھجاتے یا کنگھا کرتے وقت بال ٹوٹ جائیں تو ایک بال کے بدلہ میں ایک مٹھی غلہ یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چھوہارا اور دو بالوں کے بدلہ میں دو مٹھی غلہ یا دو ٹکڑے روٹی اور اگر تین سے زائد بال گرے تو صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرے، اگر بیماری کے سبب یا اَزخود بال گریں تو کوئی کفارہ نہیں۔
تلبیہ: تلبیہ وہ مخصوص ورد ہے جو حج اور عمرہ کے دوران حالت احرام میں کیا جاتا ہے، احرام کیلئے ایک مرتبہ زبان سے تلبیہ کہنا ضروری ہے۔
طواف: مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے اردگرد بطریقِ خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں، طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوتا ہے، طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے، اضطباع کہلاتا ہے، کعبہ کی طرف منہ کر کے اپنی دائیں جانب حجرِ اسود کی طرف چلیں، یہاں تک کہ حجر اسود بالکل سامنے ہو جائے، اس کے بعد طواف کی نیت کریں۔
رَمَل: طواف کے پہلے تین پھیروں میں تیز قدم اٹھانے اور شانے ہلانے کو رمل کہتے ہیں، جیسا کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں، حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بیت اللہ کا طواف فرماتے تو تین مرتبہ رمل فرماتے اور چار مرتبہ چلتے (ابن ماجہ: 2951)
دورانِ طواف وضو ٹوٹنا یا نماز کا وقت ہو جانا: دوران طواف وضو ٹوٹ جانے یا نماز کا وقت ہو جانے کی صورت میں طواف وہیں چھوڑ کر وضو یا نماز پڑھنے چلا جائے اور واپس آ کر جتنے چکر رہ گئے ہوں انہیں پورا کرے تو طواف پورا ہو جائے گا۔
اِستِلاَم : دونوں ہاتھوں کے درمیان منہ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر بھیڑ کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو چوم لینے کا اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو استلام کہتے ہیں، حضرت زبیر ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمرؓ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرمﷺ کو اس کا استلام کرتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب الحج،حدیث1532)
سعی: صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی طرف جانا اور آنا اور درمیان میں سات مرتبہ دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔
ایامِ تشریق: 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک کے ایّام، ایامِ تشریق کہلاتے ہیں، ان دنوں میں ہر فرض نماز باجماعت پڑھنے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھی جاتی ہے۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔