لاہور: (اللہ ڈتہ انجم) دنیا کے تمام مسلمان خواہ وہ کسی بھی خطے میں رہتے ہوں، اجتماعی خوشی عید کا دن عقیدت و احترام سے مناتے ہیں کیونکہ عید الفطرمسلمانوں کا ایک مقدس اور عظیم تہوارہے۔
عید کی اجتماعی شان تو اپنی جگہ لیکن ایک توعید ہمارے اندر قلبی اور روحانی خوشی پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کے تعلقات، محبت اور جذبۂ ایثار میں اضافہ کرتی ہے، عیدالفطر خوشیوں بھرا دن ہونے کیساتھ ساتھ ﷲ تعالیٰ کے حضور تشکر کا دن بھی ہے، اسی لئے روزِ عید کی ابتدأ خصوصی نماز سے ہوتی ہے۔
جشن عید پرعبادت کا رنگ نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ برنگے لباس، لہلاتے ہوئے آنچل، چہروں پر مسکراہٹیں، آنکھوں میں روشنی کی پھوٹتی ہوئی کرنیں، لڑکیوں اور خواتین کے مہندی سے سجے ہوئے ہاتھوں میں چوڑیوں کی کھنک، بچوں کی شرارتیں اور قہقہے، نوجوانوں کی سلام اور آداب کی صدائیں، بڑے بوڑھوں کی سبھی کیلئے دعائیں، باورچی خانوں سے طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں، گھر سے باہرجگہ جگہ میلوں کا دلفریب سماں، قسم قسم کے سجے ہوئے سٹال، پہلے سے کہیں زیادہ صاف اوربھری ہوئی مٹھائی کی دوکانیں ،دہی بھلے، جملہ عروسی کی طرح سجے ہوئے پھل فروٹ کے سٹال،قصابوں کی دوکانوں کے اردگردچونے کی مددسے گل فشانی غرض ہرسورونق ہوتی ہے۔ زندگی محو رقص نظر آتی ہے۔ ان سب کو اگر یکجا کریں توعید کی قوسِ قزح بنتی ہے۔
عید ماہِ رمضان کی آزمائشوں سے گزرنے والوں اور عبادت گزاروں کیلئے ایک تحفہ اور عبادات کے تشکر کے اظہار کی ایک صورت ہے، ماہِ صیام اور جشن نزول قرآن حکیم کے بخیروخوبی اختتام پر دنیا بھر کے مسلمان ﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ ٔ شکر بجا لاتے ہیں۔
دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں وہ حسبِ توفیق صاف ستھرے کپڑے پہنے، خوشبو لگائے نمازعید ادا کرتے ہیں، نماز کی ادائیگی کے بعد ایک دوسرے کے گلے ملتے اور شکایات دور کرتے نظر آتے ہیں، خوشیاں بانٹتے ہوئے عید کی مبارکبادیں پیش کرتے ہیں، عید کے دن گھر میں اچھے اچھے پکوان پکانا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا اور ہمسائیوں و عزیزوں کے گھروں میں کھانا بھیج کر خوشی محسوس کی جاتی ہے، یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔
نمازعید وہ واحد نماز ہے جس کا اہتمام کئی دن پہلے سے ہی شروع ہو جاتا ہے، کئی روز پہلے کپڑے سلوائے جاتے ہیں، نئے جوتے خریدے جاتے ہیں، بروز عید ہر شخص صبح سویرے اٹھ کر غسل کرتا ہے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر خوشبو لگاتا ہے، نمازکی ادائیگی سے قبل چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیزیں کھائی جاتی ہیں، یہ تمام طریقے مسنون ہیں۔
عیدکی خوشیوں کے رنگ اگرچہ روزِ اوّل کی طرح سے تقریباً وہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض طور طریقے بدل چکے ہیں، پہلے زمانے میں روزوں کے آخری دن مغرب ہوتے ہی کھلے میدانوں اور گھروں کی چھتوں وغیرہ پربڑے بوڑھوں، جوانوں، بچوں کا ہجوم ہوتا تھا، ہر نظرآسمان پر ٹکی ہوتی تھی، مردو خواتین غرض ہرشخص عید کا چاند خود دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔
چاند نظر آتے ہی ہر سو شور مچ جاتا، نقارے، گولے اور سائرن کی آوازیں ہر کسی کو چاند کی نوید دیتی تھیں، ایک دوسرے کو چاند کی مبارک باد دی جاتی، بچوں کا اشتیاق اور جوش دیکھ کر بڑے بھی خوش ہوا کرتے تھے، ملک بھر میں لاکھوں افراد اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ایک سے ایک خوبصورت عید کارڈ بھیج کربڑی خوشی محسوس کرتے تھے، عیدکا رڈ محبت کا ایک بہترین اور خوبصورت ذریعہ تھا۔
عید سے کئی روز قبل عید کارڈ بھیجنے کی پرانی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے، اب اس کی جگہ موبائل SMS، واٹس ایپ نے لے لی ہے، رویت ہلال کمیٹی کے سوأ کوئی چاند نہیں دیکھتا، ٹی وی یا ریڈیو پر نظریں اور کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں، نمازعید، عیدگاہ میں ہی جا کر ادا کی جاتی ہے، عیدگاہ جانے کیلئے جس راستے سے جائیں واپسی کیلئے دوسرا راستہ اختیار کریں، فطرانہ کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ضرور کی جائے، بہرحال عید مسلمانوں کاسب سے خوبصورت تہوار ہے۔
ایک دفعہ عید کے دن نبی کریم حضرت محمدﷺ مسجد جا رہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کو کھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے، بچوں سے سلام دعا کے بعد آپ ﷺ آگے تشریف لے گئے تو وہاں ایک بچے کو اُداس بیٹھے دیکھا، آپﷺ نے اس کے قریب جا کر پوچھا تم کیوں اُداس اور پریشان ہو؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا، اے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ میں یتیم ہوں میرا باپ نہیں ہے جو میرے لئے نئے کپڑے خریدتا، میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلا کر نئے کپڑے پہنا دیتی، اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔
آپﷺ اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے فرمایا ’’اس بچے کو نہلا دو ’’اتنے میں آپﷺ نے اپنی چادر مبارک کے دو ٹکڑے کر دیئے، چادر کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیا، بچہ جب نہلا کر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپﷺ نے بچے سے فرمایا آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گا بلکہ میرے کندھوں پرسوار ہو کر جائے گا، آپ ﷺنے یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا اور مسجد کی طرٖف روانہ ہوگئے۔
راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب اُن بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اُداس بیٹھا تھا، رحمت دوعالم حضرت محمدﷺ کے کندھوں سوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے تو آج نبی کریمﷺ کے کندھوں کی سواری کرتے، یہاں تک کہ سرکار دوعالمﷺ نے اُس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی نیکیاں لکھ دے گا۔
ہمیں بھی نبی کریمﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے اردگرد بسنے والے غریب، یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہیے تاکہ ان کی بھی عید ہو جائے اور ہمیں بروز قیامت آپﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے، عید الفطر کے دن غربأ و مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی کرنا نہیں بھولنا چاہیے یہ ہمارا اخلاقی، قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔
اللہ ڈتہ انجم لکھنے سے گہرا شغف رکھتے ہیں، سماجی، ثقافتی اور علمی موضوعات پہ خامہ فرسائی کرتے ہیں، دھنوٹ ضلع لودھراں سے تعلق ہے۔