اسلام آباد: (دنیانیوز) سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات پر کارروائی کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے۔
جسٹس مظاہر کے استعفے کے متن میں کہا گیا ہے کہ میرے لیے پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے فرائض انجام دینا قابل فخرہے، ایسے حالات جن کا عوام کو علم ہے اور کچھ حد تک ریکارڈ پر موجود ہیں، میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر فرائض نبھاتا رہوں، قانونی کارروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے لہٰذا میں بطور سپریم کورٹ کے جج آج مستعفی ہوتا ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استعفے کی کاپی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھی بھیج دی۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی 17 مارچ 2020 کو سپریم کورٹ کے جج بنے تھے، اس سے قبل وہ لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے۔
خیال رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس زیرسماعت ہے اور اس سے قبل جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز کا تفصیلی جواب جمع کرایا تھا۔
جسٹس مظاہرنقوی کاسپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز کا تفصیلی جواب
سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج نے جواب میں اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کو مسترد کیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے، کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں، رولز کے مطابق کونسل کو معلومات دینے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض عائد کیا ہے ، جمع کرائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے، اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ بار کونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایما پر دائر کی گئی ہیں ، پاکستان بار کی 21 فروری کو اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلافِ قانون ہے، یہ الزام سراسر غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص باآسانی رجوع کر سکتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا، یہ انتظامی معاملہ ہے، غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا ہے، ایس ٹی جونز پارک والے گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا۔
انہوں نے جمع کرائے گئے جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج کرنے اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی ۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔
یاد رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔