اسلام آباد: (دنیا نیوز) پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کی گئی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بنچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی، مریض مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے اس شخص کو مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، رولز میں ردوبدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولزبنانے کیلئے با اختیار ہے، اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کیلئے پابند کرنے کا مطلب موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل کو 11 بجے تک ختم کریں، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے۔
چیف جسٹس کا دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پر اظہار برہمی
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے، جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے، تحریری جواب جمع کرانے پر چیف جسٹس کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذ ابھی پکڑا دیئے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ، ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔
ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیوجرسی کے عدالتی فیصلے کو بطور مثال پیش کر رہے ہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال ہے کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کا اختیار کہاں اور کس کو دیا گیا ہے، آئین کے مطابق رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار آئین کے مطابق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز آئین کے ہی مطابق ہوسکتی ہے سب کو معلوم ہے۔
وکیل عابد زبیری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ حدود واضح کرتے ہیں، جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں، اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔
ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں: جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، آئین سازوں نے اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔
چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ کو نہیں کرنی چاہئے، کوئی غلطی ہوئی تو ازالے کی سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے، پاکستان میں 184 تین کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ ہم آپ کی رائے سننا چاہتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر پابندی کیوں نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کیلئے بااختیار ہے۔
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنالے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184 تھری کا استعمال کیسے ہوا، کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے، آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا۔
اگر ہم نے غلطی درست نہیں کی تو کیا پارلیمان بھی درست نہیں کرسکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تھری میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، اس سے پہلے کہ دنیا انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، ایک چیف جسٹس نےغلطی کی تو پارلیمنٹ درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں۔
چیف جسٹس نے وکیل عابد زبیری سے سوال کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184 تھری پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کاغلط استعمال ہوتا رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184 تھری کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے توغلط ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست آ سکتی ہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ جی بالکل آ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں
وکیل عابد زبیری نے موقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کا استعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو جائے تو کیا اپیل نہیں ہونی چاہیے، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارلیمنٹ کیلئے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہوگا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔
ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سے شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نا ہوتی، آپ نا مدعی ہیں نا مدعا علیہ تو پھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے 188 کے تحت نظرثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا، ایکٹ کے تحت نظر ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟ آپ کے دلائل مکمل ہوگئے، اب اگلے فریق کو 20 منٹ سنیں گے۔
عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان کے دلائل
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو درخواست گزارعمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل عدنان خان نے مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز میں ردوبدل کا اختیار نہیں دیا، چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بے کار کر دیا، سپریم کورٹ 2 بنیادوں پر کھڑی ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیئے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیئے گئے۔
وکیل عدنان خان نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر مشاورت بنچز بنا سکتا ہے، اگر دو ججز کہتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے بنچ نہیں بنانے صرف چیمبر ورک کرنا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات بے کار ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ابھی اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ آپ اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں؟
جس پر وکیل عدنان خان نے مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں، قانون سازی سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں فوری مقرر ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کیلئے اپنا دماغ استعمال کرتے تھے، میں نے کیس مینجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے، کیا میں نے کیس مینجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نہ ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہو گا؟
وکیل عدنان خان نے کہ مشاورت اچھی چیز ہے، چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے، قانون یا شرع کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہوگا؟ کوئی حوالہ دے دیجئے۔
وکیل عدنان خان نے جواب دیا کہ میں ریفرنس جمع کرا دوں گا، جس کے بعد وکیل عدنان خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ کے دلائل
وکیل شاہد رانا نے دلائل شروع کرتے ہی سوال اٹھایا کہ اگر 15 ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ 15 ججزفیصلہ کریں گے تو نہیں ہوگی اپیل۔
وکیل شاہد رانا نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا، کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے درست نہیں کیا جا سکتا، یہاں بار کے انتخابات جتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کیلئے نمبر ون کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، کیا سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 تین کے دائرہ کار میں کیا یہ تمام فیصلے درست ہیں؟
وکیل شاہد رانا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 تین کے تحت مفاد عامہ کے کیس سننے چاہیے مفاد خاص کے نہیں، اللہ نے تمام حکم دلیل کے ساتھ دیئے تو قانون سازی بغیر دلیل کے کیسے ہو سکتی ہے؟
چیف جسٹس اور درخواست گزار کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پربلایا تو وکیل درخواست گزار امتیاز صدیقی نے دلائل کیلئے وقت نا دینے پر اعتراض اٹھا دیا جس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخی بھی ہوئی۔
وکیل درخواست گزار امتیاز صدیقی نے مؤقف پیش کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟ جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا، حکمنامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میرے ساتھی آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں، جس پر وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہوگئے۔
مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم کے دلائل
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ مجھ سے پہلے مسلم لیگ ق کے وکیل دلائل دینا چاہتے ہیں، جس کے بعد مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم نے دلائل شروع کئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے آپ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل سے کہا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں، جس پر وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ ”سبجیکٹ ٹو لاء“ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟ آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔
وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2010 کے فیصلے میں اپنے رولز کو اعلیٰ درجے پر قرار دیا، کیا سپریم کورٹ نے اپنے رولز کو قانون سے بالا قرار دیا تھا؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر میں آپ سے سوال ایسا پوچھوں جو میں نے فیصلہ کرنا ہے تو سوال کا کیا فائدہ؟ جس پر وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز سے متعلق ایک لکیر کھینچی گئی ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کے قواعد و ضوابط ہیں، میں اپیل کے حق سے متعلق دلائل دینا چاہتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ زاہد صاحب، آپ یہ تمام سوالات جمع کر لیں، ہم آدھے گھنٹے کی لنچ بریک کر رہے ہیں، جس پر سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل زاہد ابراہیم سے کہا کہ آپ آرٹیکل 191 سے اینٹری 55 کا تعلق سمجھا دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ کے ذریعے آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی، کیا آئین پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کا اختیار بہت وسیع ہونا چاہئے، آپ 1956 کا آئین پڑھیں۔
چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ آپ دلائل سے متفق ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بنچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔
کیا پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے: جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا، قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے وکیل زاہد ابراہیم سے کہا کہ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے؟ جس پر وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ اپیل بنیادی حق ہے ، اسلام بھی پابند کرتا ہے کہ اپیل کا حق ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کوئی دلائل تو دیں جن کو ہم درج کر لیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے پہلے سے موجود اختیار کو بڑھایا گیا ہے، ماضی میں کئی بار وکلاء نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کا غلط استعمال کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ ہے اختیارات بڑھا سکتی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم بڑھانے کے لفظ کو پابندی کیلئے استعمال کریں گے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اختیارات کو بڑھانے کو آرٹیکل 175(2) کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب مرضی ہوگی قانون بنائیں گے کیا یہ آپ کی دلیل ہے، چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ زاہد صاحب برائے مہربانی اپنے دلائل تو بتائیں پہلے۔
وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ درخواست گزاروں سے سوال کیا گیا ہے کونسا بنیادی حق اس ایکٹ سے متاثر ہوا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کوشش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے کام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا جائے، عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سے استفسار کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے، جس پر زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ ہے، رولز میں چیف جسٹس کے بنچ مقرر کرنے کا ہے، مقدمات مقرر کرنا چیف جسٹس کے رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو قانون اور آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین کے دلائل
ق لیگ کے وکیل زاہد ابراہیم کے دلائل مکمل ہونے پر مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل صلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے بہت آرا آئی ہیں، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے دلائل شخصیت کو مدنظر رکھ کر دے رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو آرا دی گئی وہ ان کی آرا ہوں گی، کسی کا ایک مؤقف ہوتا ہے دوسرے کا دوسرا مؤقف، بہتر ہوگا کہ پارلیمان کے اختیار پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو سننا چاہتا ہوں اپنے دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین آج آپ آخری وکیل ہیں، باقی وکلا کو منگل کو دن ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا، ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے، اس کے باوجود ہائیکورٹ کے اندر ہی انٹراکورٹ اپیل کا حق بھی دیا گیا۔
سماعت ملتوی
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت منگل کی صبح 11:30 تک ملتوی کر دی گئی، عدالت کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سماعت کا حکم نامہ تحریر کرا رہے ہیں، اٹارنی جنرل اور دیگر وکلاء منگل کو اپنے دلائل دیں گے۔