نواز شریف کو وطن واپسی سے قبل امریکا جانے کا مشورہ

Published On 21 November,2022 06:23 pm

اسلام آباد، لندن: (جاوید حسین، اظہر جاوید، ویب ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپسی سے قبل امریکا جانے کا مشورہ دیدیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد کو ان کے ڈاکٹرز نے مشورہ دیا ہے کہ وطن واپسی سے قبل علاج کے لیے امریکا جائیں۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے اپنی پارٹی رہنماؤں کو شیڈول سے آگاہ کر دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو وطن واپسی سے قبل علاج مکمل کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم کی شریانوں کا علاج امریکا سے کرایا جائے گا، ان کے امریکا جانے کے لئے فیملی کے سفارتخانے سے بھی رابطے کیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف کو پاسپورٹ ملنے کے بعد امریکا جانے کی رائے دی گئی ہے، لیگی نائب صدر مریم نواز بھی والد کے ہمراہ امریکا کا دورہ کرینگی۔

ذرائع کے مطابق لیگی قائد کا امریکا سے واپسی پر برطانیہ میں بھی ایک آپریشن ہو گا، برطانیہ میں آپریشن کے بعد نواز شریف وطن واپسی کا ٹائم فریم دیں گے، نواز شریف اور مریم نواز اکھٹے پاکستان واپس آئیں گے۔

شریف فیملی چھٹیاں منانے یورپ روانہ

دوسری طرف میاں نواز شریف، مریم نواز اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ یورپ روانہ ہو گئے، شریف فیملی کے افراد دس دن یورپ کے مختلف ممالک میں چھٹیاں گزارنے کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔

نواز شریف نے برطانوی ہوم آفس سے اپنی اپیل واپس لے لی

اُدھر ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نے برطانوی ہوم آفس سے اپنی اپیل واپس لے لی ہے، یہ اپیل ہوم آفس میں زیر التوا تھی ابھی تک جج نے اپیل نہیں سنی، مختلف تاریخ دی جاتی رہی۔

یاد رہے کہ نواز شریف کی برطانیہ چھوڑے بغیر برطانیہ میں قیام میں توسیع کی درخواست ہوم آفس نے مسترد کردی تھی، انہوں نے اس فیصلے کے خلاف برطانوی ہوم آفس میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔

نواز شریف کی خرابی صحت سے لندن روانگی

خیال رہے کہ 21 اکتوبر 2019ء کو نیب کی تحویل میں چودھری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو صحت کی تشویشناک صورتحال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہو رہے تھے۔ سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز تھے بعد ازاں اس بورڈ میں مزید ڈاکٹروں اور ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے تفصیلات فرہم کرتے ہوئے بتایا تھا نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابلِ علاج ہے۔

اسی دوران شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ان کی سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ جبکہ چودھری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 5 نومبر کو صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی تاہم وہ 6 نومبر کو اپنی رہائش گاہ جاتی امرا روانہ ہوئے جہاں انہیں گھر میں قیام آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔

صحت کے حوالے سے ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا تھا کہ نواز شریف کی طبیعت میں بہتری ہے تاہم پلیٹلیٹس میں بار بار کمی کے دیگر اسباب جاننے کے لیے جینٹیک ٹیسٹ ضروری ہیں جو پاکستان میں ممکن نہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک سفر کرسکتے ہیں۔

عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد سابق وزیراعظم کا نام سفری پابندی کی فہرست ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ درپیش تھا جس کے لیے شہباز شریف نے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جس نے نیب کی رضامندی طلب کی تھی۔

نیب نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے میڈیکل رپورٹ طلب کی تاکہ نواز شریف کی صحت سے متعلق انہیں بیرون جانے کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کیا جاسکے۔

انتظامی تاخیر کے سبب حکومت نے ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جس کے باعث بیرونِ ملک روانگی کے تمام تر انتظامات ہونے کے باوجود نواز شریف 10 نومبر کو لندن روانہ نہیں ہوسکے تھے۔ بعدازاں 11 نومبر کو وزارت داخلہ کے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی اور اسی دن نوٹس جاری کیا گیا، 12 تاریخ کو کابینہ کو بریفنگ دی اور انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔

حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈز جمع کروانے تھے۔ تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا۔

حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دے دی جائے اور وہ واپس نہ آئے تو قومی احتساب بیورو (نیب) اور عدالتیں پوچھ سکتی ہیں کہ حکومت نے کیوں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی۔

بیرونِ ملک روانگی کے حوالے سے جاری رہنے والی کشمکش کی صورتحال کے پیشِ نظر صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت کی جانب سےنواز شریف کا نام ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔

بعدازاں اگلے ہی سماعت میں عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تنقید 

 یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی جلا وطنی کے دوران سابق حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اپنے متعدد جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں کہ انہیں ملک سے باہر بھیجنا میری سب سے بڑی غلطی تھی۔

نواز شریف کی پاکستان واپسی

اسی دوران پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں نے اعلان کیا تھا جب تک نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں ہو جاتی وہ واپس نہیں آئیں گے، الیکشن سے قبل کمپین نوازشریف کی قیادت میں کی جائے گی۔