پی ٹی آئی کیخلاف ممنوعہ فنڈنگ ثابت، الیکشن کمیشن کا متفقہ فیصلہ، شوکاز نوٹس جاری

Published On 02 August,2022 10:23 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے تحریری فیصلے کے ساتھ پی ٹی آئی کی حاصل کردہ ممنوعہ فنڈنگ کی تفصیل جاری کر دی۔ 68 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں برسٹل سروسز والی فنڈنگ، پی ٹی آئی امریکہ، کینیڈا سے ملنے والی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔

تحریری فیصلے میں پی ٹی آئی کو 34 غیر ملکی شہریوں سے ملنے والی فنڈنگ، رومیتا سیٹھی سے ملنے والی فنڈنگ اور 351 غیرملکی کمپنیوں سے ملنے والی فنڈنگ کو بھی ممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے کےمین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ووٹن کرکٹ کلب سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالر حاصل کیے۔ ووٹن کرکٹ کلب ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کی ملکیت ہے۔ پی ٹی آئی نے متحدہ عرب امارات کی برسٹل انجینئیرنگ سے 49 ہزار 965 امریکی ڈالر کے فنڈز لیے۔ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ای پلینٹ اور برطانوی کمپنی ایس ایس مارکیٹنگ سے کل 10 لاکھ ایک ہزار 741 ڈالرز حاصل کیے گئے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف امریکہ کےذریعے 2 ایل ایل سی کمپنیوں سے 25 لاکھ 25 ہزار 500 ڈالر پی ٹی آئی پاکستان کو منتقل کیے گئے۔ پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن سے 2 لاکھ 79 ہزار 822 ڈالر فنڈز منتقل ہوئے۔ پی ٹی آئی یو کے پبلک لیمیٹڈ کمپنی سے 7 لاکھ 92 ہزار 265 برطانوی پاؤنڈز منتقل ہوئے۔ پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن سے 35 لاکھ 81 ہزار 186 پاکستانی روپے کے عطیات بھی وصول کیے گئے۔پی ٹی آئی نے آسٹریلوی کمپنی ڈنپیک پرائیوٹ لیمیٹڈ، انور برادرز، زین کاٹن اور ینگ سپورٹس سے بھی فنڈنگ وصول کی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ فنڈنگ پاکستانی قوانین کے خلاف ہے۔ حاصل کی گئی فنڈنگ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 اور آرٹیکل 6/3 کی خلاف ورزی ہے۔ پی ٹی آئی نے بھارتی نژاد امریکی شہری رومیتا شیٹی سے بھی تیرہ ہزار 750 ڈالرز وصول کیے۔ تحریک انصاف نے 8 بینک اکائونٹس کی ملکیت تسلیم کی جبکہ تیرہ بینک اکائونٹس کو نامعلوم دکھایا گیا۔ سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق یہ تیرہ اکائونٹس پی ٹی آئی کی سینئر قیادت نے لکھوائے اور آپریٹ کیے۔جمع کرائی گئیں اسٹیٹمنٹس سٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز لیے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کیجانب سے جمع کروایا گیا بیان حلفی مس ڈیکلریشن ہے، پارٹی اکاونٹس کے حوالے سے بھی جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ 34غیر ملکیوں سے بھی عطیات وصول کیے گئے، تحریک انصاف نے 16 اکاونٹس کے حوالے سے وضاحت نہیں دی۔ 16 بینک اکاونٹس چھپانا آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔ کیوں نہ سارے فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہ سیاسی فیصلے الیکشن کمیشن نہیں ، عوام فیصلہ کرتی ہے۔ پی ٹی آئی اکیلی پارٹی ہے جس نے سیٹھ نہیں رکھے ہوئے۔ فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ کیس میں کسی قسم کی کوئی فارن فنڈنگ نہیں نکلی، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں نوٹس جاری ہواہے جس کا بھرپور جواب دیں گے۔

تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس دائر کرنے والے اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا، پاکستان کی سیاست میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط کرنا اور ان پر بھروسہ کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی نے غلط بیانی کی اور اکاونٹس پوشیدہ رکھے۔

فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟

14 نومبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔

اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔

پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جبکہ سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔

پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔