کراچی: (عاصم بھٹی) پاکستان میں جب بھی طوفانی بارشیں ہوں یا سیلابی صورتحال ،مشکلات شہریوں کے ہی نصیب میں آتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں حالیہ بارشوں،سیلابی ریلوں اور دریاوں میں ڈوب کر 71 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو شہریوں کے ساتھ ساتھ دیہاتیوں کیلئے بھی مسائل کھڑے ہوگئے، طوفانی بارشوں نے کھڑی فصلیں برباد کیں تو جمع ہونے والے پانی نے ندی نالوں میں تغیانی پیدا کردی جس کی زد میں آکر قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ سندھ کے شہر حیدرآباد اور اطراف کے علاقوں سے ریسکیو اداروں نے ایک خاتون سمیت دریائوں اور ندی نالوں سے 22 افراد کی لاشیں نکالیں۔ لاڑکانہ میں بچے سمیت چھ افراد پانی میں ڈوب کر زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سکھر میں بھی 6 افراد بہتے پانی میں زندگیاں گنوا بیٹھے۔ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی 4 جولائی سے 18 جولائی تک نالوں گھروں کے ٹینک اورتالاب میں ڈوب کر 14 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
لیاقت آباد میں نالے سے تین یا چار روزپرانی لاش ملی ۔سپر ہائی وے کریم سوسائٹی کے گھر میں پانی کے ٹینک میں ڈوب کر ایک شخص جاں بحق ہوا۔لیاری ایکسپریس وے ندی سے بھی ایک شخص کی لاش ملی۔ لیاقت آباد ہی میں ندی سے بچی کی ڈوبی ہوئی لاش ملی ،بلوچ کالونی شاہ فیصل نمبر تین، بلدیہ اتحاد ٹائون ،نیا گولی مار اور سائٹ کے علاقے سے بھی ڈوبی ہوئی لاشیں ملیں جنہیں شناخت کے بعد تدفین کیلئے ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ نالوں کی صفائی اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے شادمان ٹاؤن کے علاقے میں نالے کے قریب سے گزرتے ہوئے میاں بیوی اور کمسن بچے نالے میں جاگرے، علاقہ مکینوں کی مدد سے شوہر اپنے ایک بچے کو بچانے میں کامیاب رہا تاہم بدقسمتی سے بیوی اور بچی کو نہ بچا سکا۔ طویل جدوجہد کرکے بیوی کی لاش نکالی گئی اور بچی کی تلاش جاری ہے۔
صوبہ بلوچستان میں بھی 30 افراد بے رحم تیز پانی کے بہاؤ کی نذر ہو گئے۔ کوئٹہ میں 8 افراد جان سے گئے۔ہر بار سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والا علاقہ لورالائی میں 10 افراد سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے جبکہ سبی میں بارشوں کی تباہ کاریوں کے دوران 5 افراد کی زندگیوںکے چراغ گل ہو گئے۔ بلوچستان میں مقیم سیاسی و سماجی رہنما میر اکرام آوارانی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ہر بار صرف احتیاطی تدابیرکے اعلانات کئے جاتے ہیں تاہم جب آفات آتی ہیں تو آرمی اور سماجی کارکنان یہاں کے بے بس باسیوں کا سہارا بنتے ہیں۔ ہر سال بارشوں کے بعد سیلابی ریلے آتے ہیں اور انسانوںکے ساتھ مال مویشی بھی بہا کر لے جاتے ہیں جبکہ اس صورتحال میں حکومتی مشینری دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
سیلابی صورتحال میں بلوچستان کے مسائل دیگر صوبوں سے الگ ہیں۔ یہاں جان بچانے کے ساتھ ساتھ خود کو زندہ رکھنے کیلئے خوراک کے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دور دراز اور دشوار گزار علاقوں کی وجہ سے عام مخیر حضرات بھی ان تک نہیں پہنچ پاتے ۔بلوچستان کے شہری مدد کیلئے آرمی اور ایف سی کو پکارتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں حکومت کی جانب سے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی ریسکیو ادارے نہیں ہیں جس کے باعث ایدھی اور چھیپا سمیت پاکستانی نیوی کو ریسکیو کے عمل میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ پاکستان نیوی کے پاس ماہر غوطہ خور موجود ہیں تاہم سیلابی صورتحال میں شہریوں کی جان بچانے اور جاں بحق افراد کی لاشیں نکالنے کیلئے ایدھی اور چھیپا ریسکیو اداروں نے اپنے کارکنان کو خصوصی تربیت دے رکھی ہے جبکہ گہرے سمندر میں حادثات کی صورت میں ریسکیو کیلئے اسپیڈ بوٹ کے خصوصی انتظامات ہیں ۔
کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے ، ہر گزرتے دن کے ساتھ موسم کی سختیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ شہر میں جب جب بارش ہوتی ہے، سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ برساتی نالوں میں موجود کچرا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 48 بڑے جبکہ تین سو چالیس چھوٹے برساتی نالے ہیں جو کچرے سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اگست 2020ء میں ہونے والی بارشوں کے بعد شہر کے تین بڑے برساتی نالوں کو بحال کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا،محمود آباد نالے کی از سر نو بحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ گجر نالے اور اورنگی ٹاؤن نالے کو بحال کرنے کا کام تاحال جاری ہے۔
عاصم بھٹی روزنامہ دنیا کے کراچی بیورو سے وابستہ نوجوان صحافی ہیں۔