این اے 240 الیکشن: ٹی ایل پی کیساتھ کانٹے دار مقابلہ، متحدہ سیٹ بچانے میں کامیاب

Published On 16 June,2022 05:33 pm

کراچی: (دنیا نیوز) این اے 240 کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہو گئی، تحریک لبیک کیساتھ کانٹے دار مقابلہ ہوا، ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی نے دوسری پوزیشن حاصل کی، مہاجر قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاک سر زمین (پی ایس پی) نے بالترتیب تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ پولنگ کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔

خیال رہے کہ 2018 ء کے جنرل الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان کے اقبال محمد علی خان نے 61 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے فتح حاصل کی تھی، ٹی ایل پی نے 30 ہزار سے ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن پر قبضہ کیا تھا جبکہ تحریک انصاف 29 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر تیسرے نمبر پر آئی تھی۔

پولنگ 

این اے 240 کورنگی کراچی 2 کے ضمنی الیکشن میں پولنگ صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک بلا کسی تعطل کے جاری رہی، پولنگ کے دوران گورنمنٹ بوائزپرائمری سکول انصاری محلہ یوسی 2 لانڈھی میں دو سیاسی جماعتوں میں تصادم ہوگیا، سیاسی جماعت کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا، جھگڑے کے باعث متعدد سیاسی کارکن زخمی ہوگئے، پولیس نے صورت حال پر قابوپالیا۔

غیر حتمی غیرسرکاری نتائج

این اے 240 کراچی کورنگی 2 کے 309 پولنگ سٹیشنز کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے محمد ابو بکر 10683 ووٹ لیکر فاتح قرار پائے جبکہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے شہزادہ شہباز نے 10618 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ 

ہنگامہ آرائی کے دوران ایک شخص جاں بحق

ضمنی انتخاب کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے دوران ایک شخص جاں بحق ہو گیا، جس کی تصدیق ڈائریکٹر جناح ہسپتال شاہد رسول نے کی۔جاں بحق ہونے والے کا نام سیف الدین ہے۔ پاک سر زمین پارٹی کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ جاں بحق ہونے والا شخص ہماراکارکن تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ لانڈھی کے مختلف علاقوں سے اب تک 4 زخمیوں کو لایا جاچکا ہے، جاں بحق ہونے والے شخص اور چاروں زخمیوں کو گولیاں لگی ہیں۔

انیس قائم خانی کی گاڑی پر فائرنگ

ووٹنگ کے دوران کشیدگی بھی دیکھنے کو ملی، اس دوران حلقے میں پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے صدر انیس قائم خانی کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا۔ انیس قائم خانی نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کی گاڑی پر 4 سے 5 افراد نے فائرنگ کی،گاڑی پر4 گولیاں لگی ہیں۔

ایم کیو ایم کے 1درجن سے زائد کارکنان زخمی ہوئے، امین الحق

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے دعویٰ کیا کہ تین بجے کے بعد ایک مخصوص سیاسی پارٹی نے پولنگ اسٹیشنز پر حملے کیے،شر پسندوں کا مقصد الیکشن کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر پولنگ کو رکوانا تھا۔ ایم کیو ایم کے ایک درجن سے زائد کارکنان زخمی ہوئے ہیں۔

سابق رکن اسمبلی افتخار عالم فائرنگ سے زخمی

ترجمان نے کہا کہ فائرنگ سے پی ایس پی کے چھ سے سات کارکنان زخمی ہوئے، فائرنگ سے ہمارے رہنما و سابق رکن اسمبلی افتخار عالم بھی زخمی ہوئے جنہیں دو سے تین گولیاں لگی ہیں۔

مصطفیٰ کمال

پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولنگ کے دوران دھاندلی ہوئی، جہاں دھاندلی ہورہی تھی ہم پکڑتے جارہے تھے، پھر ایم کیو ایم نے لانڈھی نمبر 6 میں ہمارا کیمپ اکھاڑ دیا، ہمارے کارکنوں کو ڈنڈوں اور سریوں سے مارا، اطلاع ملنے پر جب میں وہاں گیا تو ان لوگوں نے ہم پر حملہ کردیا، وجہ یہ ہے کہ ان کے لوگوں کو مختلف جگہوں پر رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس پی کے دفتر پر براہ راست فائرنگ ہوئی، ٹی ایل پی نے ہمارے دفتر پر حملہ کیا، ہمارے کئی کارکن زخمی ہوئے اور ایک کارکن شہید ہوگیا لیکن پولیس کچھ نہیں کررہی، ہم نے کسی کو ایک پتھر تک نہیں مارا، اگر ہمارے پاس ہتھیار ہوتے تو حملہ آور واپس نہ جاسکتے تھے، ایم کیو ایم کے کئی لوگ ٹھپے لگاتے ہوئے پکڑے گئے لیکن پولیس ایم کیو ایم کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ حملہ کرنے والے چاہ رہے ہیں کہ کراچی میں پرانا دور واپس آجائے، ریاست ہمارے شہید ساتھی کے قاتلوں کو گرفتار کرے یا پھر ہمیں اسلحہ دے۔

تحریک لبیک پاکستان

اسی طرح تحریک لبیک (ٹی ایل پی) نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت کے کارکنان نے ہمارے امیر سعد حسین رضوی کی گاڑی پر فائرنگ کی ہے۔

دوسری طرف ٹی ایل پی ترجمان کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن علامہ غلام غوث بغدادی، رکن سندھ اسمبلی مفتی قاسم فخری اور کراچی تنظیمی کمیٹی کے ناظم اعلیٰ عمر فاروق سمیت کارکنان شدید زخمی ہوئے۔

صوبائی الیکشن کمشنر

صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان کا کہنا ہے کہ رینجرز کی ایس او پی کے تحت انہیں پولنگ اسٹیشن کے باہر رکھا گیا ، دوبارہ انتخاب کے بارے میں نتائج آنے کے بعد فیصلہ ہوگا، پریزائیڈنگ افسر اور ریٹرینگ افسر کی رپورٹ پرلائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ پولیس کے پلان کے تحت 1500 اہلکار تعینات کیے گئے، پولنگ اسٹیشن کے باہر امن و امان برقرار رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ کا نوٹس 

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کے حلقے این اے 240 پر فائرنگ اور تشدد کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی کو ہدایت کی کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دیں، الیکشن کا ماحول پرامن رکھا جائے، جو قانون ہاتھ میں لے اس سے سختی سے نمٹا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، ہمیں پر امن رہنا اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا

دوسری طرف این اے 240 ضمنی انتخاب کے دوران ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا، ووٹرز گھروں سے نہیں نکلے، پولنگ کے دوران سہ پہر تین بجے تک ٹرن آؤٹ 5 فیصد تھا، چھٹی کا روز نا ہونے کے باعث ووٹرزووٹ نہ ڈال سکے، سیاسی جماعتوں کے انتخابی کیمپ پر بھی سناٹا رہا۔

یاد رہے کہ این اے 240 کے حلقے میں لانڈھی اور کورنگی عبداللہ شاہ نورانی ٹاؤن، لانڈھی بابر مارکیٹ، شاہ خالد کالونی، زمان آباد، کرسچن کالونی، جام نگر، خضر آباد، خرم آباد، پیر بخاری کالونی شامل ہیں۔

ووٹرز کی تعداد

حلقے کی آبادی 8 لاکھ 54 ہزار سے زائد ہے، حلقے میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 855 ہے، جن میں مرد ووٹرز 2 لاکھ 94 ہزار 385، اور خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 35 ہزار 470 ہے۔

خیال رہے کہ 2018 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی 61 ہزار 165 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، ان کے 19 اپریل کو انتقال کے باعث سے یہ نشست خالی ہو گئی تھی۔

مکمل پولنگ سٹیشنز

حلقے میں پولنگ سٹیشنز 309 ہیں، حساس پولنگ اسٹیشن 106 جبکہ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 203 ہے ، حلقے میں 21 امیدوار میدان میں ہیں، آزاد امیدوار 15 جبکہ سیاسی جماعتوں کے 6 امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔

آزاد امیدوار عمیر علی انجم ایم کیو ایم امیدوار کے حق میں دست بردار ہوگئے ہیں، آزاد امیدوار نعیم حشمت نے بھی دست برداری کا اعلان کر دیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) میئو برادری اور قریشی برادری نے اس حلقے سے ایم کیو ایم کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے، آزاد امیدوار شاہین خان نے مہاجر قومی موومنٹ کے امیدوار کے حق میں دست برداری کا اعلان کیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا، تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا ہے جب کہ جماعت اسلامی نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا۔