معاشی بحران، مشکل فیصلوں کی ضرورت

Published On 09 June,2022 11:08 am

اسلام آباد : (محمد عادل) ملک کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خراب معاشی صورتحال ہے ۔مخدوش حالات فوری الیکشن نہیں ذمہ دارانہ فیصلوں کے متقاضی ہیں جو سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی شہبازشریف حکومت تذبذب کا شکارہوگئی ،ایک طرف عمران خان کا فوری الیکشن کیلئے دباؤ اور دوسری طرف سخت معاشی فیصلوں کے نتیجے میں عوامی ردعمل کا خوف ۔مشکل فیصلوں کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضے ملنے کی امید پیدا ہوچلی ہے جس سے معیشت اور کاروبارحکومت چلانا آسان ہوجائے گا۔ اب معاشی بحران پر مکمل قابو پانے کیلئے پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے۔وزیراعظم شہبازشریف نے ایک بار پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی بات تو کی ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس گرینڈ ڈائیلاگ کی اونر شپ کون لے گا؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ایک حکومت چلی گئی دوسری آگئی لیکن الزام تراشی کی سیاست جاری ہے۔ماضی میں ن لیگ پیٹرول اور مہنگائی پرسیاسی پوائنٹ سکورنگ کررہی تھی اور تحریک انصاف اس کا دفاع کررہی تھی لیکن حکومت بدلتے ہی اب ن لیگ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور مہنگائی کا دفاع اور تحریک انصاف مخالفت کرتی نظر آ رہی ہے۔

سیاستدان ایک دوسرے کیلئے ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں۔ بات چیت کیلئے بیٹھتے بھی ہیں تو اعتماد کا فقدان ہے،رویے میں لچک دکھاتے ہیں نہ پیچھے ہٹنے کو تیار ہوتے ہیں ، اداروں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا بیانیہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ،ملک کو آگے چلانا ہے تو سب کو مل کر سوچنا ہو گا، شہباز شریف کی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پر معیشت اور موجودہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈر ملک کی خاطر ذاتی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متفقہ قومی لائحہ عمل تیار کریں۔بدقسمتی سے تحریک انصاف نے گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز مسترد کردی ہے۔ عمران خان کوبات چیت کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں ۔وہ قومی اور پاپولر لیڈر ہیں اس لئے انہیں ملک کے معاشی حالات پر الزام تراشیوں کی بجائے اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی افراتفری پھیلی ،عمران خان نے امریکی سازش اور فوری الیکشن کا بیانیہ بنایا، بڑے بڑے جلسے کئے اور مارچ لیکر اسلام آباد پہنچ گئے لیکن کسی نتیجے پر پہنچے بغیراچانک چھ دن کی ڈیڈلائن دیکرچلے گئے۔یہ ڈیڈلائن خاموشی سے گزر گئی، نیا اعلان تو نہ آیا لیکن فوری الیکشن کا مطالبہ کرنے والی پی ٹی آئی ضمنی الیکشن کیلئے تیار ہوگئی۔اب نیا سیاسی اکھاڑا سڑکوں پر نہیں پنجاب کے چودہ اضلاع کے 20 حلقوں میں لگے گا۔17جولائی کو ضمنی الیکشن کے نتائج تحریک انصاف کے اگلے سیاسی لائحہ عمل اور آئندہ الیکشن میں اس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرینگے۔اگر عمران خان کا بیانیہ حکومتی اتحاد کو بہا لے گیا تو ان کی تحریک میں ایک بار پھر جان پڑ جائے گی ۔ہاؤس فل جلسوں کے باوجود بظاہرتحریک انصاف اسلام آباد مارچ کیلئے پنجاب سے کارکن نہ نکال سکی۔ اب ان حلقوں میں امیدواروں کا انتخاب تحریک انصاف کیلئے بڑا امتحان ہے،ضمنی الیکشن والے دس سے زیادہ نشستوں پر 2018 ء میں اپنے زوربازو پرآزاد امیدوار کامیاب ہوکر پی ٹی آئی کا حصہ بنے۔ یہی امیدوار اب ن لیگ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے جسے پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔

تمام تر حکومتی وسائل کے باوجود مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی یہ ضمنی الیکشن اتنے آسان نہیں ہوںگے ۔سخت معاشی فیصلوں کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمتوں اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے عوام کو بے حال کردیا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ اور مہنگائی کیخلاف عوامی ردعمل حکومتی اتحاد کی کامیابی کو مشکل بنا سکتا ہے ،جس کاخمیازہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے استعفوں پر تحریک انصاف کے اندر اتفاق رائے نہیں،کچھ رہنما عمران خان کے بیانیہ اور کچھ افراداس کے حوالے سے سخت موقف پر نالاں ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ حکمت عملی تبدیل نہ ہوئی توپارٹی کیلئے مستقبل میں کافی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔سپیکر نے چھ جون کو پی ٹی آئی کو استعفوں کی تصدیق کیلئے طلب کیا تھا لیکن پارٹی نے نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سپیکر دس جون تک پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کا انتظار کریں گے اس کے بعد وہ قواعد وضوابط کے مطابق اپنا فیصلہ دے دینگے۔ عمران خان استعفوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں وہ اس معاملے کو مزید لٹکانا چاہتے ہیں ۔

دوسری طرف تحریک انصاف نے حکومتی اتحاد کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے ،وزیراعظم شہبازشریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض جو مستقبل میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے بھی خواہشمند ہیں نے متفقہ طور الیکشن کمیشن کے دوارکان کا تقررکردیا ہے۔ عمران خان الیکشن کمیشن پر پہلے ہی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ،اب چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے بھی حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن میں مشاورت جاری ہے ۔اگرعمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا فیصلہ نہ کیا تو آئندہ الیکشن کیلئے عبوری حکومت کیلئے ہونے والی مشاورت میں بھی شامل نہیں ہوسکیں گے۔اہم سیٹوں پر تعیناتی کے مشاورتی عمل سے باہر ہوکر تحریک انصاف کوسیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔