لاہور: (حسن رضا) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کیس میں کب کیا ہوا حقائق دنیا نیوز سامنے لے آیا۔
ڈپٹی کمشنر راجن پور/ ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن راجن پور کی حیثیت سے اینٹی کرپشن پنجاب کو 9 اپریل کو ایک ریفرنس بھیجوایا گیا، ریفرنس میں الزام لگایا کہ موضع کچھ میانوالی جمعہ بندی کا اصل ریکارڈ خرد برد کیا گیا جس میں ذمہ داروں کے خلاف اندراج مقدمہ کی سفارش کی گئی۔ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب رائے منظور ناصر نے 11 اپریل کو ڈی سی راجن پور کی سفارشات کو تسلیم کرلیا۔
قسمت علی پٹواری، شوکت علی پٹواری اور دیگر زمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا اور بقیہ ملزمان کے کردار کا تعین کرنے کی سفارش منظور کی گئی، دورانِ تفتیش محمد افضل تحصیلدار روجھان اور محمد وقاص مرید نے لینڈ ریفارمز، کلرک ڈی سی آفس راجن پور، محمد اصغر، عبدالرحمن پٹواری نے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے۔
دورانِ تفتیش اور ریکارڈ کے معائنہ سے یہ پایا گیا کہ شیریں مہرالنساء مزاری نے محکمہ مال کی ملی بھگت کیساتھ فراڈ کرتے ہوئے انتقال نمبر 27 مورخہ 1972ء کے ذریعے 800 کنال زمین بوگس کمپنی کے نام، جس کا نام ایم ایس پروگریسو فارم لمیٹڈ تھا، انتقال کروا لیا، تاہم پرت پٹوار کے ریکارڈ سے یہ ثابت ہوا نہ تو خریدنے والے اور نہ ہی فروخت کرنے والے انگوٹھے اور دستخط موجود ہیں۔
تاہم پرت سرکار عبدالرحمن پٹواری نے ریکارڈ پیش کی، فیڈرل لینڈ کمیشن نے 26 مئی 1975ء کو اس انتقال کو بوگس قرار دیا تھا، ریکارڈ سے پایا گیا کہ شیریں مزاری نے 1386 کنال زمین صوبائی لینڈ کمیشن کے حوالے کی تھیں، ریکارڈ کے مطابق شیریں مزاری کی جانب سے ٹمپرنگ، کٹنگ کی گئی تھی۔
شیری مزاری کے والد عاشق مزاری لینڈ ریفارمز پر بحق سرکار ہوئیں، لینڈ الاٹ ہونے کے بعد زمین حقوق ملکیت کے طور پر کاشت کی اجازت دی لیکن پرت پٹوار میں 218, 480 کنال سمیت دیگر ہزاروں ایکٹر زمین پر قبضہ کیا گیا، 200 سے زائد لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔