سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار

Published On 07 April,2022 06:45 pm

اسلام آباد:(دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔

فیصلہ

 چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا کہ ہمارا فیصلہ متفقہ رائے سے ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے، رولنگ 3 اپریل کو دی گئی، جن لوگوں نے ریکوزیشن دی تھی انہیں نوٹس دیئے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے منافی ہے، تحریک عدم اعتماد زیرالتوا رہے گی، اسمبلیاں توڑنا بھی خلاف قانون تھا، قومی اسمبلی توڑنا بھی خلاف قانون تھا، قومی اسمبلی پرانی پوزیشن پر بحال ہوگی، وفاقی کابینہ عہدوں پر بحال ہوگی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا بھی غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ 9اپریل کو دن ساڑھے 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے، قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان عدم اعتماد پر ووٹ کا سٹ کرسکیں گے، آرٹیکل 63 کے نفاذ پر عدالتی فیصلہ اثر انداز نہ ہوگا، عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد کیا جائے، عدم اعتماد کامیاب ہو تو نیا وزیر اعظم منتخب کیا جائے، حکومت کسی بھی طرح اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے مت روکے، وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے۔

ازخود نوٹس کیس نمٹانے اور فیصلہ سنانے کے بعد ججز کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ 

فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے اور پولیس کی اضافی نفری کو طلب کیا گیا تھا جبکہ فواد چودھری، فیصل جاوید، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنما فیصلہ سننے کے لیے عدالت عظمیٰ پہنچے تھے۔

اس موقع پر وکلا اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی دیکھنے میں آئی اور ہاتھا پائی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے دوران ہوئی۔

چیف الیکشن کمشنر

فیصلہ سنائے جانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر، سیکریٹری الیکشن کمیشن قانونی ٹیم کے ہمراہ طلب کیے جانے پر سپریم کورٹ پہنچے۔

 چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو رسٹرم پر بلایا،چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر وقت الیکشن کرانے کےلیے تیار ہے،ہم اسٹیٹ آف دی آرٹ حلقہ بندیاں کرانا چاہتے ہیں،2023کے عام انتخابات کیلئے بھی حلقہ بندیوں کی بات کی تھی، خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام کے بعد سیٹوں میں ردوبدل ہوا ہے۔

لگ یہ رہا ہے سپریم کورٹ الیکشن کرانے کا کہے گی: فاروق ایچ نائیک

قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے تھا کہ  لگ یہ رہا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کرانے کا کہے گی۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے از خود نوٹس کیس میں پیپلز پارٹی کے وکیل اور سینئر رہنما فاروق ایچ نائیک نےکہا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ عدالت سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دے گی، تاہم یہ بھی لگ رہا ہے کہ الیکشن کا عمل شروع ہوگیا ہے اور عدالت قومی مفاد کے تحت الیکشن کرانے کا کہے گی۔
 سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کرینگے:وزیراعظم

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ  سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کرینگے۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے قانونی ٹیم کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں قانونی ٹیم نے سماعت بارے بریفنگ دی ۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کرینگے، پی ٹی آئی نئے انتخابات کے لئے تیار ہے، غیر ملکی سازش کو کسی طور پر کامیاب نہیں ہونے دینگے۔

الیکشن کمیشن انتخابات نہ کرا کر آئین کی خلاف ورزی کر رہا : فواد چودھری

 پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چودھری نے کہا تھا کہ  الیکشن کمیشن انتخابات نہ کرا کر آئین کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کرینگے۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواز نہیں ہے، الیکشن کمیشن انتخابات نہ کرانے کا کہہ کر اپنے خلاف سنگین ایجنڈا کھڑا کر رہا ہے، ملک آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر چلتا ہے، ملک مولانا کے فیصلوں پر نہیں چلتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوبھی فیصلہ آئے آخرمیں الیکشن ہی ہونا ہے، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کرینگے، الیکشن ہی ہر مسئلے کا حل ہے، جو جماعتیں الیکشن سے بھاگ رہی ہیں وہ کوئی اور کام کریں، ہم فضل الرحمان نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس انصار اسلام فورس ہے۔

قبل ازیں تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اپنے مؤقف پرنظرثانی کرنی چاہئے،90 دن سے زیادہ الیکشن کو آگے لےجانے کی کوشش آئین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی، ملکی معیشت سات ماہ کی سیاسی افراتفری برداشت ہی نہیں کر سکتی، پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دے سکتے، جلد از جلد سیاسی استحکام کیلئے الیکشن نوے دن کے اندر لازم ہیں۔

 سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت  

 قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، قومی اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا، ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا، سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے، حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے ؟ ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ انہوں نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں ؟ جس پر وکیل صدر مملکت علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا ؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی ؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا ؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے ؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دے دیا۔ علی ظفر نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں ؟ عدالت نے پوچھا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیاسی معاملے کا جواب بطور صدر کے وکیل نہیں دے سکتا۔

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے، درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

امتیاز صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیل 69 کو آرٹیکل 127 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمانی کارروائی کو مکمل تحفظ حاصل ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ معذرت کے ساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے فیصلے کے آپ پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں، عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں، آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔

وکیل نعیم بخاری کی جانب سے وقفہ سوالات کا حوالہ دیا گیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، جسٹس اعجاز الااحسن نے پوچھا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی؟ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی، رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہے، پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے ؟ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے ڈپٹی اسپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں آپ آ گئے ہیں تو کیس میں بھی دلائل دیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں، اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کر دیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آ سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے، پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنی نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی، اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر بھی موجود ہے، اپوزیشن سے تجاویز بھی لے لیں، موجودہ مینڈیٹ 2018 کی اسمبلی کا ہے، آج اگر کوئی حکومت بنائے گا تو کتنی مستحکم ہوگی۔ عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ عدلیہ کی بہت عزت کرتا ہوں، عام آدمی ہوں، قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیئے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

لیگی ہنما شہباز شریف نے کہا کہ بطور اپوزیشن لیڈر چارٹڈ آف اکنامکس کی پیش کش کی، 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ ارکان کو فیصلہ کرنے دینا چاہئے، پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، مطمئن ضمیر کیساتھ قبر میں جاؤں گا، سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں۔ عدالت نے فریقین دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔