اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دورۂ روس سے واپس آنے کے بعد مطمئن ہوں کہ دورے پر جانے کا فیصلہ درست تھا۔ دورہ روس پر ہم نے امریکا کے معصومانہ سوال کا مؤدبانہ جواب دے دیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب ہم ماسکو پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں تبصرے شروع ہوگئے کہ دورے کا وقت غلط تھا، بھارتی میڈیا نے تو یہاں تک خبریں پھیلا دیں کہ دورہ منسوخ ہوگیا اور وزیر اعظم عمران خان واپس لوٹ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں، اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی، دورے سے ہمارے جو مقاصد تھے وہ ہم نے حاصل کیے۔
شاہ محمود نے بتایا کہ دورے پر جانے سے پہلے ہم نے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک نشست کی جس میں اس صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اس دورے میں سابق سفارت کاروں کو دعوت دی گئی اور دورے کے حوالے سے ان سے باقاعدہ مشاورت کی اور پھر دورے پر جانے کا حتمی فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور کشمیر کے معاملے پر روس کو اعتماد میں لینے کا یہ بہترین موقع تھا جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا، روس کا اس خطے میں بھی اہم اثر و رسوخ ہے، دورے کے بعد میں مطمئن ہوں کہ ہمارا فیصلہ درست تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دورۂ روس سے قبل امریکا نے ہم سے رابطہ کیا اور ہم سے معصومانہ سوال کیا جس کا ہم نے مؤدبانہ جواب دے دیا، امریکا کو ہم نے روس جانے سے پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ ہم روس کیوں جارہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دورے کے دوران کچھ پاکستانی سیاستدانوں کے ٹوئٹر دیکھے جو گھبرائے ہوئے تھے، لیکن وزیر اعظم مطمئن تھے، اس کی وجہ مجھے یہی سمجھ آتی ہے کہ عمران خان کے لندن، امریکا میں کوئی بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں، کوئی بیرون ملک کاروبار نہیں ہے، وہ صرف ملکی مفادات کی بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے کریملن میں ملاقات ہوئی، یہ ساڑھے 3 گھنٹے طویل نشست تھی جس میں دونوں سربراہان نے مختلف امور پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نشست میں وزیر اعظم اور صدر پیوٹن نے پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں پچھلے چند سالوں کے دوران آنے والی بہتری پر تبادلہ خیال کیا۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ دونوں سربراہان کی ملاقات میں علاقائی معاملات پر بھی بات چیت ہوئی جس کا مرکز افغانستان کو درپیش مسائل اور جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی اور استحکام تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ افغانستان سے متعلق روس اور پاکستان کی متفقہ رائے ہے، ملاقات میں غور کیا گیا کہ انسانی بحران اور معاشی بحران سے افغانستان کو کیسے محفوظ کیا جائے، اس کے مضر اثرات صرف پاکستان نہیں پورے خطے پر نمودار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 30 اور 31 مارچ کو چین میں 6 ممالک کے فورم پر 2 نشستیں ہوں گی جس میں مجھے مدعو کیا گیا ہے، روس کے وزیر خارجہ بھی آئیں گے، ان نشستوں میں بھی افغانستان پر مزید بات کرنے کا موقع ملے گا۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم نے روسی صدر سے ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھی انہیں اعتماد میں لیا اور اپنا نقطۂ نظر ان کے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوا، اس میں ہماری خصوصی توجہ نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن (پاکستان اسٹریم پائپ لائن) پر تھی، جو منصوبے پہلے سے موجود ہیں انہیں مزید تیز کرنے کے طریقہ کار پر بھی غور کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کی ٹیلی فون پر بھی ولادیمیر پیوٹن سے اسلاموفوبیا پر بات ہوئی تھی اور اب ملاقات میں بھی دونوں سربراہان کے درمیان اسلاموفوبیا پر تبادلہ خیال ہوا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس نشست کے بعد ہم واپس ہوٹل لوٹے، وہاں روس کے ڈپٹی وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک تشریف لائے، ان کے ہمراہ روس کے وزیر توانائی بھی تھے جو اب ہمارے انٹر گورمنٹل کمیشن کو چیئر بھی کرتے ہیں، دیگر سینئر حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہماری گفتگو کا مرکز دوطرفہ تجارت پر رہا، دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات ہوئی، توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں ہم نے انہیں آگاہ کیا کہ ہم روس سے گیس کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہمارے یہاں گیس کا بحران رہا ہے جس سے ہماری صنعت متاثر ہوئی، ہم روس کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں، اس لیے ازبکستان تک آنے والی روس کی گیس پائپ لائن کو براستہ افغانستان، پاکستان تک توسیع دی جائے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے علاوہ گوادر میں ایل این جی ٹرمینل کے قیام پر بھی بات ہوئی جس میں انہوں نے دلچسپی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت کے راستے میں رکاوٹوں کو رفع کرنے کے پر بھی غور کیا گیا اور مضبوط بینکنگ سسٹم مربوط کرنے کے طریقہ کار بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فیٹف کے معاملے پر روس کے وزیر خارجہ سے تبادلہ خیال ہوا، ان کو اعتماد میں لیا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لیے کیا کیا اقدامادت اٹھائے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے اقدامات کوسراہا، وہ اس فورم کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہتے، میں نے ان سے درخواست کی کہ کچھ قوتیں اس فورم کو سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کرنا چاہ رہی ہیں لیکن یہ واضح کروں کہ روس اس کا حصہ نہیں بنے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان مارچ کے آخر میں اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس منعقد کرنے جارہا ہے، جس میں شرکت کے لیے اور پاکستان آنے کے لیے دورۂ روس میں کئی لوگوں نے دلچپسی بھی ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم، ایئرپورٹ روانگی سے قبل ماسکو تشریف لے گئے اور وہاں کی سینٹرل مسجد کا بھی دورہ کیا اور گرینڈ مفتی سے بھی تبادلہ خیال کیا، جنہوں نے بتایا کہ تقریباً ڈھائی کروڑ مسلمان روسی فیڈریشن میں موجود ہیں۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہم نے یہ بھی طے کیا کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے باہمی مفادات کو عالمی سطح پر فروغ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایشیا میں طاقت کے عدم توازن پر بھی تبادلہ خیال کیا اور خطے کے امن و استحکام کو درپیش خطرات کی بھی نشادہی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں وزیر اعظم کو یوکرین صورتحال پر پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کا بھی موقع ملا جس کا ذکر وزیراعظم نے مناسب وقت پر بہترین انداز میں کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ صورتحال راتوں رات نہیں پیدا ہوئی، ہماری پہلے دن سے خواہش تھی کہ یہ سارا معاملہ سفارتکاری کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہیں، گندم کی قیمتوں میں 7 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، ایسی لڑائیوں سے ترقی پذیر ممالک کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، تحمل کا مظاہرہ کیا جائے، سفارتکاری کے ابھی بھی امکانات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں پاکستانی سفارتخانے سے ہمارا رابطہ ہے، ماسکو جانے سے پہلے ہی ان کو ہدایات دی جاچکی تھیں کہ وہاں موجود پاکستانویں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور طلبہ کو محفوظ جگہ منتقل کیا جائے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ابھی بھی ہم مسلسل ان سے رابطے میں ہیں، ہمارے سفارتخانے کو ہم نے پچھلے 48 گھنٹوں میں ترنوپل میں پالش بارڈر کے قریب نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے تاکہ پاکستانیوں کے انخلا میں آسانی ہو کیونکہ وہاں سے پولینڈ اور ہنگری وغیرہ منتقل کرنا آسان ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین میں پاکستانی طالب علم کی ہلاکت کی خبر میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
روس اور یوکرین کے حالیہ تنازع کے حوالے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم واضح کرچکے ہیں کہ ہم نے کسی کیمپ کا حصہ نہیں بننا، یہی ہماری ترجیح ہے، اس دورے کا مرکز روس اور یوکرین تنازع نہیں تھا بلکہ پاکستان اور روس کے درمیان دوطرفہ تعلقات تھے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ پاکستان ملٹری کے تعلقات بہت بہتری کی جانب جارہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن شوق سے ملاقاتیں کرے، کوئی فرق نہیں پڑنے والا، کل میں گھوٹکی پہنچ رہا ہوں، بلاول اور شہباز بھی تیار ہوجائیں، کل لاڑکانہ میں ہر سوال کا جواب ملے گا۔