لاہور:(دنیا نیوز) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے، کامیابی کیلئے 172 ارکان کی حمایت ضروری، صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی، آپشن اس وقت استعمال ہوسکتا ہے جب لوگوں کو فون نہ آئیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے، عدم اعتماد کا آپشن اس وقت استعمال ہوسکتا ہے جب لوگوں کوفون نہ آئیں، مصنوعی بیساکھی ختم ہوجائے تو یہ حکومت ایک دن میں ختم ہوجائے گی، حکومت کی بڑی تعداد اس حکومت کا ساتھ نہیں دینا چاہتی۔
ن لیگی رہنما نے کہا کہ جب پیپلزپارٹی نے کہا تھا اس وقت عدم اعتماد کا ماحول نہیں تھا، عدم اعتماد کا آپشن سنجیدگی سے استعمال کیا جاتا ہے، عدم اعتماد کا آپشن تب استعمال کیا جاتا ہے جب بیساکھیاں ہٹ جائیں، عدم اعتماد پی ٹی آئی، اتحادی اراکین کے بغیرممکن نہیں ہے، اپوزیشن کی تعداد 162ہے، اسمبلی میں 172 ارکان کا ساتھ چاہیے، عدم اعتماد کے لیے 172 اراکین پیش کرنا پڑیں گے، صرف کہنے سے نہیں بلکہ سنجیدگی سے آپشن استعمال کرنا ہوگا۔
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کومہنگائی کنٹرول کرنے کا اختیاردیا جارہا ہے، اگراسٹیٹ بینک مہنگائی کنٹرول نہیں کرسکے گا توکس کوجوابدہ ہوگا؟ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف اور دیگراداروں کو پاکستان کی خفیہ معلومات بھی دے سکتا ہے، یہ اسٹیٹ بینک پاکستان نہیں آئی ایم ایف کا اسٹیٹ بینک ہوگا، اسٹیٹ بینک کو اتنی خودمختاری کسی ملک میں حاصل نہیں ہے، حکومت جب اسٹیٹ بینک سے قرض لے گی تو واپس ادا کرنا ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک بل ، ایک ، ایک شق پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، حکومت کی قانون سازی کو کل کو اپوزیشن ریورس کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک بل پراسمبلی میں بحث ہونی چاہیے تھی، اسٹیٹ بینک سے اب پارلیمان سوال نہیں کرسکے گا، اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر نے سود کی شرح کوساڑھے چھ سے بڑھا کر13فیصد کردیا، قرضوں کے سود میں 1500 ارب اضافہ ہوگیا، یہ سارے نقصان کون برداشت کرے گا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارے دورمیں بھی مجبوریاں تھی لیکن عوام پرمہنگائی کا بوجھ نہیں ڈالا تھا، حکومت پانچ سال پورے کرے گی توجی ڈی پی جہاں چھوڑکرگئے وہیں ہوگی، آج معیشت کی گروتھ ختم اورعوام پرمہنگائی کا سیلاب آگیا ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پرپڑتا ہے، عوام پر 700 ارب کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، بجٹ کے بعد مہنگائی کا سیلاب آئے گا، ادویات کی قیمتیوں میں بھی تاریخی اضافہ ہوگا،حکومت کی پارلیمانی پارٹی میں بھی تنقید ہوئی، حکومتی اراکین اسمبلی بات کرتے ہیں لیکن ان کی مجبوریاں ہے، حکومتی اراکین بھی بل کی حمایت میں تیارنہیں تھے، مجبوریوں کی وجہ سے حکومتی اراکین نے حمایت کی، کل بھی کافی ممبران کوٹیلی فون کال کیے گئے۔
رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی 162 تعداد ہے، 6 اراکین بیرون ملک تھے، 6 ہمارے اورچھ پیپلزپارٹی کے ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے، حکومت کے 179 میں سے 168 ارکان موجود تھے، حکومت کی ناکامی ہے قانون سازی میں اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکی، کل کو کوئی اورحکومت آئی تواس قانون کوتبدیل کردے گی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت عددی برتری پرکام کرتی ہے، اپوزیشن کا کام حکومت کی اصلاح ہوتا ہے، اپوزیشن نے بجٹ کے حوالے سے اپنی تجاویزدی تھی، پارلیمان تب چلتی ہے جب جمہوری قدریں ہوں ، حکومت نے رویہ اپنا لیا ہے کسی کی پرواہ نہیں کرنی، قانون سازی میں اتفاق رائے نہیں ہوگی توکل کو برقرار نہیں رہے گی ، ایسے قوانین کا ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔