لاہور:(ویب ڈیسک)نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی برمنگھم میں واقع اپنے گھر میں خاندان والوں کی موجودگی میں عاصر ملک سے شادی کرلی ہے اور ہر کوئی یہ بات جاننا چاہتا ہے کہ آخر کار ملالہ یوسفزئی کے شوہر کون ہیں ؟۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ملالہ یوسفزئی نے اپنے شوہر عاصر ملک کے ساتھ شادی کی تصاویر شیئر کیں ،اپنے پیغام میں ملالہ نے لکھا کہ کہ آج کا دن میری زندگی کا سب سے قیمتی دن ہے،میں اور عاصر ملک زندگی بھر کے لئے ہمسفر بن گئے ہیں۔
ٹوئٹر پر انہوں نے مزید لکھا کہ ہمارے نکاح کی تقریب برمنگھم والے گھر میں ہوئی ،برائے کرم ہمیں اپنے دعاؤں میں یاد رکھیں،ہم اپنی نئی زندگی کے سفر کے لئے بہت پرجوش ہیں۔
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی کے شوہر عاصر ملک کون ہیں؟یہاں بتاتے چلیں کہ ملالہ کا نکاح پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی ) کے ہائی پرفارمنس سنٹر کے افسر سے ہوا،ان کے شوہر پی سی بی میں جنرل مینجر آپریشنز کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جنہوں نے دوسال پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کو جوائن کیا تھا۔
مزید برآں عاصر ملک کی تعلیم کے متعلق بات کریں تو وہ لمز کے گریجوایٹ ہیں ،وہ پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز ملتان سلطانز کے بھی آپریشنل مینجر رہ چکے ہیں۔وہ اس کے علاوہ ایک پلیئر مینجمنٹ ایجنسی بھی چلارہے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کون ہیں؟
ملالہ یوسف زئی 12 جنوری، 1997ء کو خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں پیدا ہوئیں، وہ خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہیں اور انہیں کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔
Today marks a precious day in my life.
— Malala (@Malala) November 9, 2021
Asser and I tied the knot to be partners for life. We celebrated a small nikkah ceremony at home in Birmingham with our families. Please send us your prayers. We are excited to walk together for the journey ahead.
: @malinfezehai pic.twitter.com/SNRgm3ufWP
سوات میں سکولوں کا ایک سلسلہ ملالہ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ 2009ء کی ابتدا میں 11 یا 12 سالہ ملالہ نے "گل مکئی" کے قلمی نام سے بی بی سی کے لیے ایک بلاگ لکھا جس میں ملالہ نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اسی دوران2009 ء کی گرمیوں میں جب پاک فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔
ان کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لیے جنوبی افریقا کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔ 9 اکتوبر، 2012ء کو ملالہ سکول جانے کے لیے بس پر سوار ہوئی۔ مسلح شخص نے بس روک کر نام پوچھا اور 3 گولیاں ماریں۔ ایک گولی ان کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔
حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور انکی حالت نازک تھی تاہم جب ملالہ کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئن الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔جہاں پر ان کا علاج ہوا اور وہیں پر رہ کر زندگی گزار رہی ہیں اور بچیوں کی تعلیم کے لیے متحرک ہیں۔