پاکستانی حکومتی جماعتوں کی آزاد کشمیر کے انتخابات میں بڑی فتح کی تاریخ، تحریک انصاف روایت برقرار رکھ پائے گی؟

Published On 24 July,2021 09:14 pm

لاہور: (طارق حبیب) آزاد کشمیر کے انتخابات کی تاریخ تقریباً 45 سال پرانی ہے۔ اس سے قبل آزاد کشمیر میں صدارتی نظام رائج تھا۔ پہلی بار آزاد کشمیر کے انتخابات 1975 میں ہوئے تھے جس کے بعد باقاعدگی سے پانچ سال بعد انتخابات ہوتے رہے ہیں۔


آزاد کشمیر میں 1975 سے 1977تک پہلا صدارتی دور حکومت تھا،اور اس دور میں مسلم کانفرنس کی حکومت رہی۔ 1977 سے 1985 تک جنرل ضیا الحق کامارشل لا ء رہا، 8 سال تک جنرل حیات چیف ایگزیکٹو رہے۔دوبارہ انتخابات ہوئے تو ایک بار پھر مسلم کانفرنس نے اپنی سبقت ثابت کی اور 1985 سے 1990 تک مسلم کانفرنس کی دوبارہ حکومت رہی۔

کشمیر میں 1990 سے 1991 تک پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی جبکہ 1991 سے 1996 تک ایک بار پھر مسلم کانفرنس کی حکومت بنی۔ 1996 سے 2001 تک انتخا بی کامیابی پیپلزپارٹی کو حاصل ہوئی تو 2001 سے 2006 تک مسلم کانفرنس پھر برسراقتدار آگئی اور اس کے بعد اگلی حکومت بھی 2006 سے 2011 تک مسلم کانفرنس نے ہی بنائی۔

اس کے بعد کشمیر کے انتخابات میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کے کشمیر کے انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے تھے ۔ 2011 میں پاکستان میں وفاق پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھا جبکہ مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھی۔ اس موقع پر جب آزاد کشمیر میں انتخابات ہوئے تو اگرچہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم نواز شریف نے چلائی تھی تاہم وہ ثمرآور ثابت نہ ہوسکی۔ آزاد کشمیر کے انتخابات 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 33 میں سے 19نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن 8 سیٹیں حاصل کرسکی۔ ان کے علاوہ مسلم کانفرنس جو ماضی میں ایک مضبوط پارٹی رہی تھی اپنے مضبوط امیدواروں کے پارٹی بدل لینے کے باعث صرف 3نشستیں حاصل کرسکی جبکہ ان انتخابات میں 3آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔اس طرح 2011سے 2016تک آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی حکومت واضح اکثریت سے کام کرتی رہی۔

2016ء میں آزاد کشمیر کے دسویں انتخابت ہوئے تو پاکستان میں مسلم لیگ ن برسراقتدار تھی ۔ ان انتخابات میں آزاد کشمیر میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 33سے بڑھا کر 41کردی گئی تھی۔ انتخابات کے نتائج آئے تو مسلم لیگ ن نے 31نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس صرف تین تین نشستیں حاصل کرسکے ۔ ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف بھی داخل ہوچکی تاہم محض دو نشستیں حاصل کرسکی۔ ایک سیٹ آزاد امیدوار نے حاصل کی ۔

گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی یہی طریق رہا کہ پاکستان میں برسراقتدار جماعت ہی انتخابات میں بڑے فرق سے فتح حاصل کرتی تھی۔ 2009میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی پی پی پی نے 12جبکہ مسلم لیگ ن نے 3نشستیں حاصل کی ۔ اسی طرح 2015کے گلگت بلتستان کے انتخابات میں پاکستان میں مسلم لیگ ن برسراقتدار تھی تو اس جماعت نے گلگت بلتستان میں 15 نشستیں حاصل کی جبکہ پی پی پی صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔ 2020میں پاکستان میں جب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو گزشتہ سال گلگت بلتستان کے انتخابات میں تحریک انصاف نے 10جبکہ پی پی پی نے 3اور مسلم لیگ ن نے 2نشستیں حاصل کی ہیں۔

ان اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں برسراقتدار جماعت ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بناتی ہے ۔ تاہم ماضی کی روایت تو یہ رہی ہے کہ وفاق پاکستان کی نمائندہ جماعت بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کرتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف بڑے مارجن سے مخالفین کو شکست دینے کی اس روایت کو برقرار رکھتی ہے یا نہیں۔