مقبوضہ وادی: کشمیریوں کا مقتل، محصور جنت ارضی کے 550دنوں کی داستان خونچکاں

Published On 05 February,2021 10:58 pm

لاہور: (طارق حبیب، احمد ندیم، مہروز علی خان) بھارت نے 5اگست 2019 کو آرٹیکل 370 منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا اور کشمیریوں کی مزاحمت روکنے کیلئے وادی میںکرفیو نافذ کردیا۔

عالمی تاریخ کا سب سے طویل فوجی محاصرہ جھیلنے والی مظلوم کشمیری قوم آج بھی بدستوراسیری کی زندگی جینے پرمجبور ہیں۔ بظاہر تو دنیا کیلئے یہ بات صرف ایک خبر معلوم ہوتی تھی تاہم جب کورونا وباءنے عالمی سطح پر تباہی مچائی تو کئی ممالک کو چند دنوں یا ہفتوں کے لیے اپنے مختلف شہروں میں لاک ڈاﺅن لگانا پڑ ا تھاجس کے نتیجے میں ان ممالک کی نہ صرف معاشی حالت دگرگوں ہوئی بلکہ کئی ممالک میں عوام لاک ڈاو ¿ن سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے اور شدید مظاہرے کیے۔ احتیاط کی غرض سے چند دنوں کے لیے اپنے گھر تک محدود نہ رہ پانے والی قومیں شاید ہی کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو سمجھ سکیں۔ یقینا جانی و مالی تحفظ اور سیاسی و معاشرتی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں محصور عوام کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے سخت لاک ڈاﺅن کا سامنا ہے اور بھارت نے اس خطے میں بلیک آﺅٹ کررکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ نہیں ہوپارہی۔اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں سینکڑوں نوجوانوں کو شہید وہزاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔معیشت کے جمود کے باعث بھوک اور فاقوں کے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ کشمیری انتہائی ہمت و استقامت سے بھارتی مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیںاور یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے عالمی برادری کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھارت کی جانب سے کشمیری اراضی پر قبضہ اور ہندتوا کے پیروکاروں کی کشمیری علاقوں میں منتقلی کے خلاف عوام بدستور مزاحمت کررہے ہیں۔

بھارت میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے وہاں کی اقلیتیںہندتوا نظریے کے زیر عتاب رہی ہیں تاہم مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میںانسانیت سوز مظالم کی ایسی داستان خونچکاں لکھی ہے جسے شاید تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی اور آنے والی نسلیں بھی بھارت کا تذکرہ کرکے منہ نفرت سے موڑ لیا کرینگی۔

مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

تاریخ میں 5اگست2019 وہ سیاہ ترین دن تھا جب بھارت نے آرٹیکل370 اور 35اے کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کا اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم از کم آئینی طور پر ہی سہی، مکمل آزادی تھی۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی حقوق جو بھارت ایک طویل عرصے سے سلب کیے ہوئے ہے ، قانونی و آئینی طور پر بھی ختم کردئے گئے تھے۔ اس عمل کے پیچھے ہندتوا کا انتہا پسندانہ نظریہ موجود تھاجس کے تحت ایک جانب تو بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے اور پھر عالمی برادری نے دیکھا کہ اس انتہاپسندانہ نظریے کے منفی اثرات سے بین الاقوامی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔

فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی سرگرمیاں بڑھا دیں تھیں اور ان ہی اقدامات کو طول دیتے ہوئے یکم اگست سے مختلف علاقوں میں نیم کرفیو کا نفاذ کردیا گیا تھا۔ بظاہر سکیورٹی صورتحال کو اپنے فوجیوں کے ذریعے قابو میں کرنے کے بعد بھارت نے 5اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ہوتے ہیں کشمیری عوام نے سمندر کی طرح گلیوں محلوں ،سڑکوں چوراہوں پر جمع ہوکر فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ بھارت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاﺅن کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا۔بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کا احتجاج سے روکنے کی کوششیں کررہا تھا مگر اس میں ناکام رہا۔ کشمیری کسی شہر میں بھی بھارتی فوج کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کا نظام بند کردیا گیا ،، ٹرانسپورٹ، مکمل طور پر روک دی گئی۔ کاروبار زندگی ختم کردیا گیا۔ غرض یہ کہ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کرکے گلیوں میں فوجی اہلکار تعینات کردئے گئے۔

کشمیر تیرا حسن ہوا درد کی تصویر:

بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر مسلط کیے گئے اس لاک ڈاﺅن میں انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ذریعے بیرونی دنیا سے کشمیریوں کا رابطہ ختم کردیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کی دائیں اور بائیں بازو کی مقامی قیادت کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاتھا۔ ان اقدامات کی وجہ سے اشیائے خردونوش کی قلت پیدا ہوگئی، اسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا کرناپڑرہا تھا۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے بغیر کسی روک ٹوک کے گولیاں برسائی جارہی تھیں جس سے جانی نقصان بڑھتا گیا۔ 5اگست 2019 کے بعد سے اب تک کے دوران 321کشمیری شہیدہو چکے ہیں جبکہ 1641شدید زخمی ہوئے۔ 14463 شہریوں کو حراست میں لیا گیا جن میں سے45 افراد کو زیر حراست تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ بھارتی افواج کی جانب سے کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گن کے استعمال کے ذریعے انھیں بینائی سے محروم کرنے کے مذموم منصوبے پر کام جاری رہا جس میں سینکڑوں نوجوان اور معصوم بچے بصارت سے محروم ہوگئے ۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد 446 افراد کوپیلٹ گنز سے نشانہ بنا کر زخمی کیا گیا جن میں سے 144 افراد کی آنکھیں شدید زخمی ہوئیںجبکہ 53 افراد آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوئے۔

کشمیر ی خواتین اور بچے بھی قابض بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہوئے ہیں۔قابض بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے۔کشمیری خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ صرف ہوس کے مارے بھارتی فوجی اہلکاروں کا انفرادی جرم ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کچلنے کیلئے ریاستی دہشتگردی کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے -ا ±ن کے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں کو آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مردوں کے سامنے ا ±ن کی عورتوں کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی گھاو ¿ ہے جس کے ذریعے کشمیری مرد و خواتین کوشدید اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں ۔ ظلم و ستم، کریک ڈاو ¿ن، جعلی مقابلوں ، گمشدگیوں، بہیما نہ تشدد، اورقتل و غارت کے باوجود کشمیری خواتین پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں۔

آرٹیکل 370 کا خاتمہ سیاہ قوانین کے باب میں ایک اور اضافہ تھا جس کے ذریعے بھارت نے وادی میں لاک ڈاو ¿ن ا ور کرفیو نافذ کر کے مقبوضہ کشمیر کو بیرونی دنیا سے کاٹ دیا اور عالمی مانیٹرنگ تنظیموں کا بھی سری نگر میں داخلہ روک دیا۔ اس دوران بھارتی فوج کا سرچ آپریشن کے نام پر گھر گھر چھاپے مارنا روزانہ کا معمول بن گیا جس کا مقصد سوائے اسکے کچھ اور نہیں تھا کہ گھریلو خواتین کی آبرو ریزی کی جائے اور بچوں کا جنسی استحصال کیا جائے۔ مقامی اور عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کرفیو کی سنگین صورت حال میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری خواتین سے زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 5اگست 2019 سے اب تک بھارتی افواج کی درندگی کے باعث 61خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ 97 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اس کے علاوہ 1087 املاک کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ چھت و وسیلہ روزگار سے محروم ہوئے۔

اگست 2019 سے جاری کرفیو اور بڑھتے ہوئے مظالم سے کشمیری بچوں پر کیا کچھ بیت رہی ہے اس کی ایک تکلیف دہ مثال سوپورہ علاقے کے اس 3 سالہ بچے کی ہی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ناناکو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے گولیاں مار کر شہید کیااور نواسہ خون سے لت پت لاش کے سینے میں بیٹھ کر رو رہا تھا۔کشمیری بچے ایسے ہی دردناک مناظر دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں جس سے انھیں شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی فوجیوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے اور پیلٹ گنوں سے زخمی و نابینا ہوتے معصوم بچے اور بچیاں جس درد کو اپنے سینوں پر سمیٹے جی رہے ہیں اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ 5اگست 2019 سے اب تک 113بچے یتیم جبکہ 120 سے زائد بچے بھارتی پیلٹ گنز کا نشانہ بنے کی وجہ سے اپنی بصارت سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہوئے ہیں۔ دیگر اس کے، طویل فوجی محاصرے اورلاک ڈاو ¿ن کی وجہ سے بچوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ وہ متعدد جسمانی اور جذباتی بدسلوکیوں ،تشدد اور بے گھر ہونے جیسے خطرات سے دوچار ہیں۔ مقبوضہ وادی میں پانچ دن گزارنے والے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مطابق ، آرٹیکل 370 منسوخی کے بعد بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے راتوں رات تقریباً 13000لڑکوں کو حراست میں لے کر، غیر قانونی طور پر آرمی کیمپوں میں اور تھانوں میں رکھا گیا جہاں انہیں جسمانی و نفسیاتی اذیت دینے کیلئے ہر حربہ اپنایا گیا۔ مشن کی اس رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح5 اگست کے بعد اس طرح کے چھاپوں کے دوران بھارتی فوج کے افسران نے رات کے وقت کم عمر لڑکوں کو اغوا کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی زیادتی کی۔ ان چھاپوں کا واحد مقصد خوف پیدا کرنا تھا۔

محاصرہ اور لاک ڈاو ¿ن

کشمیریوں نے ان سخت حالات میں بھارتی مظالم کے ساتھ ساتھ کورونا کا بھی مقابلہ ایسی صورتحال میں کیا جب بھارت نے کشمیریوں کو تمام بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کر رکھا تھا۔ بیماری کی صورت میں اسپتالوں تک رسائی تھی نہ ادویات میسر تھیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اب تک 1 لاکھ 24 ہزار596کورونا کیسز سامنے آئے جن میں سے 1938 افراد جاں بحق ہوگئے۔کورونا سے متاثرہ ان مریضوں کو بھارت کی جانب سے سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اور رپورٹ کے مطابق مریضوں کی اکثریت گھروں میں قرنطینہ میں تھی۔ کورونا کی وباءسے نمٹنے کیلئے بھارت کی جانب سے کوئی اقدام کرنادور کی بات، لاک ڈاو ¿ن کے دوران بھی کشمیروں کو اپنے گھروں میں چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیااور بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آئے روز محاصروں اور گھروں میں تلاشی کا سلسلہ جاری رہا اور اکثر موقعوں پر عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنزکے نام پر نہتے کشمیروں کو شہید کیا گیا۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ شہیدوں کی میتیں لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی تھی جس کے ردعمل میں عوام احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آتے تھے۔عوامی احتجاج کو قانون کی خلاف ورزی گردان کر معصوم شہریوں پر بھارتی فوجی اہلکار چڑھ دوڑتے تھے اور کشمیروں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتے تھے جو کہ اب بھی جاری ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے آئینی حق پر ڈاکہ کے بعد کشمیر ی عوام بھارتی اہلکاروں کی بربریت اور کورونا کی وباءجیسے دو محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔

پلوامہ ڈرامے کی حقیقت

14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی ریزرو پولیس کا ایک دستہ سری نگر کو جموں سے ملانے ولی نیشنل ہائی وے سے گزر رہا تھا کہ اچانک پلوامہ کے مقام پر اس دستے پر خوش کش حملہ ہوا جس میں 40 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارت نے فوری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر دی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کے لیے اپنی کٹھ پتلیوں کو سرگرم کردیا تھا۔ پاکستان نے نہ صرف اس جھوٹے الزام کی تردید کی تھی بلکہ اس واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے تعاون کی پیشکش بھی کی تھی تاہم بھارت کے رویے سے ظاہر ہوتا تھا کہ مودی سرکار کو اس واقعے کی تحقیقات میں کوئی دلچسپی نہیں ۔یہ واقعہ تب ہوا جب بھارت میں انتخابات ہونے جارہے تھے اور نریندر مودی نے اس واقعے کو اپنے انتخابی مہم کے لیے خوب استعمال کیا، ملک میں مذہبی جنونیت اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ اس مہم کے لیے مودی حکومت نے بھارتی میڈیا کا استعمال کیا اور بھارت سمیت دنیا بھر میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بھارت دہشت گردی کا شکا ہے ۔ اس حوالے سے اہم کردار بھارتی پروپیگنڈہ کے ماہر نام نہاد صحافی ارنب گوسوامی نے ادا کیا اور پلوامہ دہشت گردی کا ذمہ دار اپنے تئیں پاکستان کو قرار دیا۔ بھارت نے 26فروری 2019کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے میں میزائلوں کے ذریعے جیش محمد کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ۔ اس حوالے سے اسی روز پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان سے بدلہ لیا گیا ہے تاہم پاکستان نے میڈیا کے ذریعے دنیا کو بتایا کہ بھارت نے اپنے میزائلوں کے ذریعے ایک کوے کو مارا ہے ۔ اگلے ہی روز پاکستان نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور بھارتی پائلیٹ ابھی نندن مارتھن کو گرفتار کرلیا۔ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے اور اپنی عسکری قوت و صلاحیت دکھانے کے بعد پاکستان نے بھارتی پائلیٹ کو رہا کردیا۔ بھارت کے عمل اور پاکستان کے جوابی ردعمل سے دنیا بھر میں بھارت کو سبکی اٹھانی پڑی۔

خطے کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے کے لیے بھارت نے پلوامہ واقعہ کو جواز بنایا تھا ۔ اگرچہ اسی پلوامہ واقعہ کے حوالے سے بھارت کے اندر ہی شکوک شبہات کا طوفان کھڑا ہوگیا تھا اور اسے بھارت کی اپنی کارروائی قرار دیا جارہا تھا ۔ اس واقعہ میں مارے جانے والے بھارتی فوجی اہلکاروں میں اکثریت سکھ برادری اور نچلی ہندو زات سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی تھی جس پر بھارتی اپوزیشن شکوک کا اظہار کررہی تھی۔ تاہم حال ہی میں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور یہ حقیقت دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی کہ پلوامہ واقعہ مودی سرکار کا رچایا ہوا ایک ڈرامہ تھاجس کامقصد نہ صرف مودی سرکارکو انتخابات میں کامیابی دلوانا تھا بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کی کاوشوں کو نقصان پہنچانے سمیت کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا بھی شامل تھا۔اس واقعے کی حقیقت سے پردہ سب سے پہلے پاکستان نے اٹھایا اور خطے میں بھارتی سازشوں کے ناقابل تردید شواہد پیش کیے۔نریندر مودی تمام شواہد سے صرف نظر کر کے 40 فوجیوں کی لاشوں پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے تاہم اس واقعے کا پول اس وقت کھلا جب بھارتی صحافی ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈئینس ریسرچ کونسل کے سربراہ کی واٹس ایب چیٹ منظرعام پر آگئی۔ واٹس ایپ چیٹ کے مطابق ارنب گوسوامی کو نہ صرف بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والے فیصلوں کا علم تھا بلکہ ٹاپ سیکرٹ عسکری منصوبوں کے بارے میں جانتا تھا۔اس واٹس ایپ چیٹ لیک کی وجہ سے دنیا کے سامنے پلوامہ ڈرامے کا بھانڈہ پھوٹا اور یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کی اقتدار کی ہوس اور مسلمانوں سے دشمنی کی آگ میں جلنے والے آر ایس ایس کے انتہاپسند نظریے کے پیروکار نریندر مودی اس حد تک جا سکتا ہے کہ اپنے ہی فوجیوں کی جانوں سے کھیل سکتا ہے۔اس چونکا دینے والے انکشاف نے پاکستانی مو ¿قف کے سچ اور بھارت کے جھوٹ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ارنب گوسوامی کے حوالے سے حقائق منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں بھارت پر لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے اور بھارت کے اندر اس حوالے سے شدید ردعمل پایا جارہا ہے جسے قابو کرنے میں مودی حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔

آرٹیکل 370

مقبوضہ جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کرکے بھارت نے ریاست کو مشروط طور پر اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اس وقت راجہ کو یقین دلایا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہوگا۔ اس یقین دہانی کو آئینی بنانے اور کشمیریوں کے گرد جال کو مزید مضبوط کرنے کے لیے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کی گئی تھی۔ آرٹیکل 370 کو 17 اکتوبر 1949 کو ہندستان کے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

آرٹیکل کے مطابق؛
• مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کی حیثیت دی گئی۔
• مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنا ایک الگ آئین بنانے اور ہندستانی آئین (آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کو چھوڑ کر) کو نافذ نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
• مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں پارلیامنٹ کے قانونی اختیارات کو پابند کرتا ہے۔
• ریاست مقبوضہ جموں کشمیر دفاعی،مالیاتی،مواصلاتی اور خارجہ امور کو چھوڑ کے کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت ،مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکے گا۔
• شہریت ، جائیداد کی ملکیت ، او رمقبوضہ جموں و کشمیر کے باشندوں کے بنیادی حقوق کا قانون باقی ہندوستان میں مقیم باشندوں سے مختلف ہے۔ جس کے تحت دیگر ریاستوں کے شہری مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے ہیں۔
• مرکز کو مقبوضہ کشمیر میں مالی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

آرٹیکل کے خاتمے کے اثرات:

بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا اور اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ اسمبلی، علیحدہ پرچم اور امور خارجہ و دفاع کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی تھی۔بنیادی طور پر یہ آرٹیکل مرکز اور ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا اور بھارتی آئین کے تحت جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں ان کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔5اگست 2019 کو بھارت نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس آرٹیکل کو منسوخ کردیا اور ریاست کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس آرٹیکل کی منسوخی کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کا یہ خصوصی اسٹیٹس ختم ہوگیا ہے اور اب ریاست پر بھارتی آئین پوری قوت اور تمام جذئیات کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آرٹیکل 35 اے :

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہوگیا ہے۔ یہ آرٹیکل 1954 کے ایک صدارتی حکم کے تحت شامل کیا گیا تھا۔آرٹیکل 35 اے آرٹیکل 370 سے ہی نکلا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق؛

• مقبوضہ کشمیر کی قانون سار اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے کہ ریاست کے مستقل رہائشی کون ہیں۔
• مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو سرکاری ملازمت،جائیداد کے حصول،آبادکاری،اسکالر پشز اور امدار کی دیگر اقسام کے حق سے متعلق خصوصی حقوق اور مراعات ملتی ہے۔
• ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو مستقل رہائشیوں کے علاوہ کسی دوسرے شخص پر کوئی بھی پابندی عائد کرنے کی اجازت ہے۔

آرٹیکل کے خاتمے کے اثرات:

جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل شہری کی تصدیق ہوتی تھی اور انھیں ریاست میں تمام حقوق ملنے کی یقین دہانی کرائی جاتی تھی۔ اس قانون کی رو سے جموں و کشمیر سے باہر کا باشندہ ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا اور نہ ہی یہاں سرکاری نوکری کرسکتا تھا۔ اس قانون کی وجہ سے انتہاپسند ہندﺅں کو کشمیرمیں باقاعدہ جائیداد کی خریداری اور سرمایہ کاری کی اجازت نہیں تھی۔تاہم اب بھارت سے کوئی بھی شخص مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہ صرف سرمایہ کاری کرسکتا ہے بلکہ جائیداد خرید کرکے مستقل شہری بھی بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا ہے اس طرح اب اس آرٹیکل کے خاتمے کے ذریعے بھارت کشمیریوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

ہرچنداس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔۔۔۔

صحافیوں کی روداد

گزشتہ ماہ بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف روزنامے ”گریٹر کشمیر“ کے مختلف دفاتر پر چھاپے مارے اور ملازمین کو تفتیش کے نام پر کئی گھنٹے تک یرغمال رکھا اور حراساں کرتے رہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے ، اسی ماہ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے سری نگر میں نمائندے پرویز بخاری کے گھر پر بھارتی فوج نے دھاوا بول دیا اور انھیں ان کے اہل خانہ کے ساتھ کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔یہ بس دو واقعات نہیں ہیں ، جب سے مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے کشمیری صحافی روز ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔
مودی جانتا تھا کہ اس کے ”ہندتوا پریوار“ کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے اور اس کے مظالم کی داستانیں اب آشکار ہونے کو ہیں۔ اس لیے بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جب مقبوضہ جموں و کشمیر کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کیا تو سب سے پہلے اس نے کشمیری قلمکاروں کو اپنا ہدف بنایا تاکہ اس کی جرائم کے حوالے سے عالمی دنیا آگاہ نہ ہوسکے۔جب کشمیری میڈیا مودی مافیا کی زد پہ آیا تو جہاں بھارتی حکومت نے اہل قلم پر درندگی و ظلم کی انتہا کی وہیں کشمیری صحافیوں نے عزم و استقامت کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ 5اگست 2019 کو بھارت نے مخصوصی ہندو انتہاپسندی سوچ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کیا تاکہ بین الاقوامی برادری سے ہر طرح کا رابطہ منقطع ہوجائے ۔ اس قدم سے بھارت کو ابتدائی طور پر یہ کامیابی ملی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی مظالم دنیا کو فوری طور پر معلوم نہ ہوسکے۔ مگر بھارتی صحافیوں نے اس کا بھی حل نکالا ۔ ائیرپورٹس، سرکاری عمارتیں،ہسپتالوں اور دیگر ایسے مقامات جہاں انٹرنیٹ کو آن رکھنا بھارتی حکومت کی مجبوری تھی، ان مقامات سے سوشل میڈیا ہینڈل کیاگیا جس سے دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی درندگی کے حوالے سے اطلاعات ملیں۔ اگرچہ بعد ازاں ہر مقام پر بھارت کی جانب سے انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا مگر اس وقت صحافی برادری خبریں اور اطلاعات دینے کے حوالے سے مختلف طریقے اختیار کرچکی تھی۔

مودی حکومت نے جب دیکھا کہ کشمیری صحافیوں کو گرفتار کرنا ممکن نہیں ہے تو اس نے اپنی فوج کو براہ راست کشمیریوں صحافیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردئے ۔ ابتداءمیں ہی برقی و اشاعتی میڈیا کے 113صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا جنھیں کچھ عرصے بعد بین الاقوامی دباﺅ پر رہا کردیا گیا۔ جب کشمیری صحافیوں نے بھارت کے تمام حربوں کو ناکام بنا دیا تو مودی حکومت نے صحافیوں کی زباں بندی کے لیے نئی پالیسی بنانے کا اعلان کردیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں اور میڈیا کے لیے 50صفحات پر مبنی دستاویز جاری کی گئی جسے میڈیا کے حوالے سے نئی پالیسی کا نام دیا گیا۔ اس دستاویز کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایکریڈیشن کارڈ کے لیے بھارتی ایجنسیوں اور سکیورٹی سرکلز سے کلیئرنس لینی ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے مطابق اس قانون کے تحت حکومت پر تنقید کرنے اور بھارتی فوج کے مظالم کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں کو قابو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح دستاویز میں میڈیا اداروں کے مالکان، ایڈیٹرز اور دیگر ملازمین کے ماضی کے حوالے سے بھی چھان بین کی جائیگی اور اس طرح بھارتی حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو میڈیا میں کام کرنے سے روکنے اور انھیں بے روزگار کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے تاکہ بھارتی تسلط کے خلاف قلم اٹھانے کی سزا دی جاسکے۔ اس پالیسی کے تحت حکومت اخبار، ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا میں شائع یا نشر ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی اور سرکاری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ فرضی خبر کون سی ہے اور سماج مخالف یا ملک مخالف رپورٹنگ کیا ہے۔ جو میڈیا تنظیمیں فرضی خبریں یا پھر ملک مخالف خبریں شائع کرنے کی مرتکب پائی جائیں گے ان کی رجسٹریشن ختم کر دی جائیگی، حکومت کے اشتہارات بند کر دیے جائیں گے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پالیسی کے مطابق اگر کسی نے جعلی خبر نشر کی، یا بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ان سے خبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جائیگی تاکہ وہ خبروں پر اپنا موقف پیش کرسکے کہ خبر منفی ہے یا مثبت۔صحافیوں کے ایکریڈیشن کے لیے بھی نئی پالیسی مرتب کی گئی ہے جس میں صحافی کا پورا بیک گراو ¿نڈ اور ماضی کی ان کی سرگرمیاں چیک کرنا شامل ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ان بھارتی اقدامات کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جبکہ دنیا بھر میں صحافتی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ”صحافی کش “ بھارتی پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں حقائق سے پردہ اٹھانے والوں صحافیوں پر دہشت گردی و غداری کے مقدمات کا اندراج معمول بن گیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کیے جارہے ہیں۔ ان کو معاشی و روزگار کے حوالے سے دھمکایا جارہاہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی میڈیا کے مطابق اب تک 17صحافیوں پر ریاست مخالف ہونے کا الزام لگا کر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 500سے زائد صحافیوں کو مختلف مواقع پر تفتیش کے لیے بلایا گیا ہے۔ بھارتی درندگی کے خلاف آواز اٹھانے پر 21 صحافی گزشتہ دو سال سے جیل میں ہیں جبکہ 341 صحافی اس عرصے کے دوران محدود وقت کے لیے گرفتار کرکے جیل بھیجے گئے اور پھر رہا کردئے گئے۔ سو سے زائد ایسے صحافی ہیں جنھیں خاموش نہ ہونے کی بنا پر بھارتی حکومت کی جانب سے اداروں پر دباﺅ ڈال کر ان کی نوکریوں سے برطرف کرایا گیا ہے۔ صحافیوں سمیت 30ہزار سے زائد نوجوان ایسے ہیں جن کا سوشل میڈیا پر گہرا اثر رسوخ تھا اور وہ مسلسل بھارتی مظالم کا بھانڈہ پھوڑ رہے تھے ، انھیں بھارتی سکیورٹی اداروں کی جانب سے تھانوں میں بلا کر حراساں کیا گیا اور انھیں بھارت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں غداری کے مقدمے میں نامزد کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان ہتھکنڈوں کے باوجود بھارت کی مودی حکومت کشمیری میڈیا کو پابند کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج کشمیری صحافی بھارتی ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے ہر ممکن طریقے سے اپنی آواز قومی و بین الاقوامی فورمز پر پہنچا رہے ہیں۔

کشمیری کارٹونسٹ بھارتی فوج کے نرغے میں:

23 سالہ کشمیری کارٹونسٹ انیس والا کے مطابق انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد پہلا خاکہ 15 اگست کو کشمیر والا اخبار میں اس وقت شائع کیا جب بھارت میں یوم آزادی منائی جا رہی تھی۔ ان کے مطابق ان کے اس اقدام پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں ملیں تاہم انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافی پہلے ہی مشکلات سے دوچار تھے تاہم اب حکومت کی دھمکیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مقامی حکومت کی جانب سے اشتہارات ملنا بھی بند ہو گئے ہیں، جبکہ متعد صحافیوں کو دہشتگردی قانون کے تحت بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی حکومت کی جانب سے مئی 2020 میں متعارف کرائے جانے والی نئی میڈیا پالیسی کے تحت کشمیر میں صحافیوں کی آزادی کو مزید دبانے کی کوشش کی گئی۔عالمی اداروں کے مطابق نئی میڈیا پالیسی بھارتی حکومت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں سنسر شپ اور صحافیوں پر ظلم و ستم کی اجازت دیتا ہے۔ اس دفعہ بھارتی حکومت جعلی خبروں اور ملک دشمن نظریے کو سامنے لائی ہے ، جس کے تحت کسی بھی کشمیری صحافی کی آسانی سے گرفتاری اوران کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں مقبوضہ کشمیر میں خاکہ نگاروں نے لاک ڈاو ¿ن کے باعث انٹرنٹ سروس کی بندش کے باعث ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں پیش آنے والی مشکلات اور بھارتی حکومت کے کورونا وباء کے دوران جاری ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے۔ رافیا رسول جو مقبوضہ کشمیر میں درجن بھر خاکہ نگاروں میں سے واحد خاتون خاکہ نگار ہیں نے اپنے خاکوں میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے وادی میں جاری لاک ڈاو ¿ن کے باعث ہونے والے سماجی اثرات کی اعکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ رافیا رسول نے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں سکولوں کی بندش، ہسپتالوں کی حالتِ زار اور پھلوں کی صنعت کی تباہ کاری کو اپنے خاکوں کی مدد سے اگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کی نظربندی کرتے ہوئے ان کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں،جس کی سب سے بڑی مثال کشمیر میں انٹرنیٹ سروسز کی بندش شامل ہے، جس کے سبب مقبوضہ جموں و کشمیر کے صحافیوں کو اپنی آواز دنیا تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صحافیوں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں رپورٹنگ کا کام قسطوں میں ہوتا ہے کیونکہ ذرائع مواصلات کی مکمل بندش ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے فوجیوں کے کریک ڈاو ¿ن اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے پیش نظر صحافی اکثر اوقات یو ایس بی ڈرائیو کے ذریعے معلومات کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی کر رہے ہیں جس کے باعث مقبوضہ وادی کے حقائق دنیا کے سامنے آنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ صحافیوں کو کشمیر میں رپورٹنگ کرنے کیلئے ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانا پرتا ہے جس میں ان کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارتی فوج اکثر راستوں پر رکاٹیں لگا کر صحافیوں کو کشیدہ علاقوں میں جانے سے روکتی ہے جبکہ اکثر اوقات کوئی چیز فلم بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے کئی صحافی عالمی دنیا میں بیٹھے ہوئے یا پھر بھارت میں بیٹھ کر دنیا تک کشمیروں کی آواز پہنچانے میں مصروف ہیں۔گزشتہ سال اگست میں وادی کشمیر کی بہادر فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم پوری دنیا کو دکھانے پر اعلیٰ ترین صحافتی ایوارڈ پیٹر میکلر سے نوازا گیا۔26سالہ مسرت زہرا اس وقت بھی بھارتی قابض افواج کی جانب سے ریاست مخالفت سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے اظہارِ رائے پر رکاوٹیں لگنے کی نشاندہی کرتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میںصحافیوں کے ساتھ ہونے والے حالیہ واقعات اور ماضی میں ہونے والے ظلم و ستم اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے، جس کے سبب وادی میں وقت کے ساتھ آزاد صحافت مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

طویل عالمی محاصروں کی تاریخ

بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہر طرح کا ظلم رو ا رکھا مگر پھر بھی کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں ناکام ہی رہا۔ کشمیری آج بھی اسی قوت کے ساتھ مزاحمت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں اور ان کی تحریک روز بروز طاقت ور ہوتی جارہی ہے جبکہ بھارت اب عالمی سطح پر بدنام سے بدنام تر ہورہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کئی ایسے ظالم و جابر گزرے جنھوںنے لاک ڈاﺅن کے ذریعے معصوموں کو دبانا چاہا ۔ دنیا میں کئی ایسی اقوام ہیں جنھوں نے مختلف مواقع پر لاک ڈاﺅن کا سامنا کیا ۔ ان ممالک میں کسی ایک شہر یا چند اضلاع میں طویل ترین کرفیو لگائے گئے اور لاک ڈاﺅن کیے گئے۔ مگر کشمیر وہ واحد قوم ہے جس نے بطور کشمیری پورے جموں و کشمیر میں لاک ڈاﺅن کا سامنا کیا ہے۔دیگر ممالک میں کس طرح اور کن حالات میں کرفیو لگایا گیا ، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

عراق:

2003 میں امریکی فوج کے حملے کے بعد عراق کے دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کیا گیا جسے 12 سال بعد فروری 2015 میں اٹھا لیا گیاتھا، یہ عراق کے ایک شہر میں کرفیو تھا جو امریکی فوج کے خلاف پیدا ہونے والے شدید ردعمل کو روکنے کے لیے تھا۔ بغداد شہر میں کرفیو کے نفاذ کی اس کوشش میں امریکہ کے ساتھ عراق کی امریکی حمایت یافتہ حکومت بھی شامل تھی۔عراق میں جاری کشیدگی کی اصل وجہ حکومتی سطح پر بدعنوانی، بے روزگاری اور پبلک سیکٹر میں حکومت کی عدم دلچسپی شامل ہے۔ ان مظاہروں میں اب تک 550سے زائد عراقی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 30ہزار سے زائد عراقی زخمی ہوئے ہیں۔

جنوبی افریقہ:

جولائی 1985کو جنوبی افریقہ کے صدر بوتھا نے اپنے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے ملک کے 36 اضلاح میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔اس دوران کئی علاقوں میں کرفیو اور لاک ڈاو ¿ن بھی نافذ کیا گیا۔ اس ایمرجنسی کو تقریباً ایک سال بعد مارچ 1986 میں ختم کیا گیا۔جون 1986 کو ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ میں ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ جس کے تحت ملک کے مخصوص علاقوں میں کرفیو نافذ کیاگیا۔چار سال بعد جون 1990 کو حکومت نے اس ایمرجنسی کو ختم کر دیا۔

مصر:

مصر میں عوامی حکومت کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے مصر کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری طور پر کرفیو اور ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا تھا۔10 اپریل 2017 کو مصر میں ریاستی ایمرجنسی نافذ کی گئی جوکہ تاحال جاری ہے، تاہم کرفیو بیشتر شہروں سے ختم کیا جاچکا ہے۔ مظاہرین نے مصری صدر السیسی کے استعفے کا مطالبہ کیا تاہم صدر السیسی ابھی تک اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ مصری حکومت کی جانب سے مظاہروں سے نمٹنے کیلئے اب تک 3ہزار سے زائد گرفتاریاں ہو چکی جن میں صحافی اور سابقہ حکمران بھی شامل ہیں۔

فلیسطین،غزہ:

فلسطینی سرزمین دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جس کے عوام نے سب سے زیادہ فوجی لاک ڈاﺅن اور کرفیو کا سامنا کیا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل ترین لاک ڈاﺅن اور محاصروں کا سامنا فلسطینیوں نے کیا ہے۔ 2007 میں اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کیا تھا جس میں فضائی، زمینی اور آبی راستے بند کردئے گئے تھے۔ یہ محاصرہ 13 سال گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے اور عالمی برادری نے بے حسی اختیار کی ہوئی ہے۔اس محاصرے کے خلا ف مزاحمت میں اب تک ہزاروں فلسطینی شہید، لاکھوں زخمی و معذور ہوچکے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں فلسطینی بستیاں اجاڑ دی گئیں ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محارے کے باعث 20لاکھ سے زائد لوگ تعلیم و صحت کی سہولیات سے محروم ہیں، جبکہ غزہ کی 80فیصد آبادی انسانی امداد پر منحصر ہے۔

میانمار:

اکتوبر 2016 کو میانمار کے صوبے رکھینے(Rakhine) میں حکومت کی جانب سے 6 ہفتوں کے لاک ڈاو ¿ن کا اعلان کیا گیا،جس کے باعث عالمی اداروں کو روھنگیا مسلمانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔گزشتہ سال اقوام متحدہ کی عالمی عدالت نے میانمار حکومت کو روھنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی کوشش کا کہا ، البتہ میانمار فوج اپنے اس بیان پر بضد ہے کہ وہ روھنگیا کے جنگجوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور فوج کی جانب سے کسی بھی شہری کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

چلی:

چلی میں عوام نے اپنی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کردیا جسے کچلنے میں چلی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بالاآخر اکتوبر 2019 کو حکومت مخالف مظاہروں کی پیش نظر دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف مقامات پر کرفیو اور ایمرجنسی نافذ کی کردی جو تاحال جاری ہے۔مظاہریں نے حکومت پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے چلی کے صدر کے استعفے کا مطالبہ کیا جبکہ چلی کے لیے نئے آئین کی تشکیل کرتے ہوئے نئی حکومت بنائے جانے کی بھی مانگ کی ۔

مقبوضہ کشمیر:معیشت پر فسطائی حملہ

مقبوضہ جموں و کشمیر میں5اگست 2019 سے جاری لاک ڈاو ¿ن سے مقبوضہ وادی کو اب تک 1446ارب 50کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

۔سیاحوں کی آمدو رفت میں 90فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بحران سو دوچار ہوگیا۔

کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق مجموعی طور پر5لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے جو تاحال مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے دربدر ہیں۔

بھارت جب کسی بھی طور تحریک آزادی کشمیر کو کچل نہ سکا تو اس نے ہندتوا ذہنیت کے مطابق سب سے خطرناک وار کرنے کا فیصلہ کیا اور کشمیریوں پر معاشی حملہ کردیا۔ مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر پر شب خون مارنے کے بعد کشمیر کی صنعتوں کو اپنے نشانہ پر رکھ لیا۔ اس حوالے سے بی جے پی کے درندوں کو خصوصی طور پر اہداف دیے گئے جنھوںنے کشمیریوں کے کاروبار پر حملے شروع کردیے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کی مضبوطی کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اپنی معیشت کو خود ہی سنبھال رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ساتھ دہائیوں پر مشتمل اس کی تاریخ میںبھارت کبھی اسے سرنگوں نہ کرپایا۔

مقبوضہ جموں کشمیر میں ٹرانسپورٹ کی صنعت، سیاحت ، ہوٹل انڈسٹری، پھلوں کی صنعت، قالین بانی، دستکاری، میوہ جات کی کاشت اور انفارمیشن کی صنعتیں کشمیری معیشت کے بنیادی ستون تصور کیے جاتے ہیں۔ اگست 2019میں جب بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ کیا تو سب سے بڑا دھچکا معیشت کو پہنچا ۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے کے صرف چار ماہ کے اندر کشمیری انڈسٹریز کو 39ہزار332کروڑ روپے (تقریباً 2.4 بلین امریکی ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا ، جبکہ اس دوران وادی میں4 لاکھ 99 ہزار کشمیری بے روزگار بھی ہوئے۔کشمیری قوم کو 2020 کے دوران مزید95ہزارکروڑ روپے(تقریباً 6.4بلین امریکی ڈالرسے زائد) کانقصان برداشت کرنا پڑا۔اسی طرح بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی معیشت کو 2019اور 2020میں تقریبا 130ہزار کروڑ روپے ( تقریباً8.4بلین امریکی ڈالر ) ہے۔

بھارتی کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں جن شعبوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ان میں زراعت اور باغبانی ، تعمیرات ، دستکاری ،مینوفیکچر ، رئیل اسٹیٹ ، ٹرانسپورٹ ، سیاحت ، آئی ٹی اور چھوٹے کاروبار ، بشمول اسٹارٹ اپس ،اور مالی خدمات ہیں۔ ان میں سے بیشتر مکمل تباہی سے دوچار ہوئے۔

فارم فور ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر کی جاری کردہ رپورٹ میں کشمیر چیمبر آف کامرس انڈسٹری نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر مقبوضہ جموں و کشمیر کو روزانہ کی بنیاد پر 2ارب 63کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ یوں بھارتی انتہا پسند مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں5اگست 2019 سے جاری لاک ڈاؤن سے مقبوضہ وادی کو اب تک 1446ارب 50کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

پھلوں کی صنعت:

بھارت کی جانب سے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد وہاں پھلوں کی صنعت خصوصاً سیب کی پیداوار اور ترسیل شدید متاثر ہوئی جس سے تقریباً 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر پر مشتمل ہے جو وہاں کی معیشت کا 10 فیصد بنتا ہے۔ فوجی محاصرے کے باعث نقل و حمل کی محدود سہولیات کی وجہ سے تقریباًدو لاکھ میٹرک ٹن سیب ضائع ہوا۔بھارتی فوج کے محاصرے اور مسلسل کرفیو کے باعث کشمیری عوام گھروں میں محصور رہے جس کے باعث 80فیصد سیب کی فصل کھڑی کھڑی تباہ ہوگئی۔ ہندوستان کی نیشنل زرعی کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن (NAFED) صرف 70.45 کروڑ روپے مالیت کے سیب خریدنے میں کامیاب رہی، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں سیب کی سالانہ آمدنی 14ہزار کروڑ روپے ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے پھلوں کی صنعت کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھارکھی ۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاو ¿ن کے باعث باغبانی کی صنعت کو روزانہ 36کروڑ65لاکھ روپے کا نقصان ہوا، یوں اب تک وادی کو مجموعی طور پر 201ارب57کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔

سیاحت:

اگست 2019میںجب بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تو یہ وہ سیزن تھا جس میں جموں و کشمیر میں سیاحوں کی آمدورفت عروج پر ہوتی ہے ،سو اس وقت بھی وادی میں تمام ہوٹلز بک ہوچکے تھے اور سیاحتی سرگرمیاں جاری تھیں۔ بھارت نے فوری طور پر ہوٹلز کو بند کردیا اور سیاحوں کو زبردستی جموں و کشمیر کو خالی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت سے بند ہوئی ہوٹل انڈسٹری آج مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ سیاحوں کی آمدو رفت میں 90فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بحران سے دوچار ہوگیا۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ چکی تھی۔ سیاحت کی صنعت جو مقبوضہ کشمیر کے جی ڈی پی میں 8فیصد حصہ رکھتی ہے جب تباہی سے دوچار ہوئی تو اس نے معیشت کو بھی شدید دھچکا دیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2019 کے آخر میں وادی میں سیاحوں کی تعداد میں 71 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ جموں کشمیر ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سال 2018 میں اگست اور دسمبر کے درمیان 3لاکھ16ہزار سے زائد سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا، البتہ اگست 2019 کے غیر قانونی فوجی محاصرے کے بعد سے یہ تعداد 43ہزارپر پہنچی اور 2020میں صرف 11ہزار سیاحوں نے ادھر کا رخ کیا۔مقبوضہ کشمیر میں سیاحت کیلئے آنے والے افراد میں بیشتر افراد وہ ہیں جن کو بھارتی حکومت کی جانب سے مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ مسلسل کرفیو اور معاشی جمود کے باعث اس صنعت سے بلاواسطہ روزی کمانے والے ہزاروں مزدور بھی بے روزگار ہوئے۔سیاحتی شعبہ کی تباہ حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی میں اس وقت تقریباً 3000 ہوٹل ہیں جن پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاست میں روزانہ کی مد میں 19کروڑ36لاکھ روپے کا نقصان ہو چکا ہے، جبکہ 5اگست 2019 سے جاری لاک ڈواو ¿ن سے اب تک 106ارب 48کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

ٹرنسپورٹ کی بندش:

مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی قابض فوجی محاصرے اور کرفیو کے باعث ٹرانسپورٹ سروس کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگست 2019 سے اب تک کشمیر میں ٹرانسپورٹ پر مکمل پابندی ہے، جس کے باعث زراعت کی تیار فصل کی نقل و حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک افراد یا تو ٹیکسی اور بسیں چلاتے ہیں یا پھر سامان کی ترسیل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی گاڑیاں قرض پر ہیں۔ نقل و حمل پر پابندی کے باعث وادی میں ادویات، خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی شدید قلت ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق ٹرانسپوٹ کی بندش کے باعث وادی کو روزانہ 29کروڑ54لاکھ کا نقصان ہو رہا ہے، جو گزشتہ 550دنوں میں162ارب 47کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے۔

بے روزگاری میں اضافہ:

بھارتی جارحیت کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں دیکھنے آیا ۔ 2020 میں سنٹر فور مونیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 17.9 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 19.21ہوچکی ہے۔اس وقت تقریباً ایک چوتھائی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان بے روزگار ہیں۔رواں سال کے آغاز تک جنرل ٹریڈ میں 1لاکھ 20 ہزار ،سیاحت میں ایک لاکھ سے زائد،انڈسٹریل سیکٹر میں 70ہزار،سروسز سیکٹر میں 66ہزار، ٹرانسپورٹ میں 60ہزار،کنسٹرکشن میں 20ہزار لوگ بے روزگار ہوئے۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق مجموعی طور پر5لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے جو تاحال مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے دربدر ہیں۔ کشمیر وادی میں اس وقت تقریباً پانچ لاکھ افراد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی تباہی کی سازش:

بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں روز ازل سے جاری تھیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپارہا تھا۔ اسی حوالے سے مارچ 2020 میں بھارت کی طرف سے جاری کردہ متنازعہ”جموں اینڈ کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفیکٹ (پروسیجر) رولز 2020“ کے تحت کوئی بھی شخص، جس نے مقبوضہ کشمیر میں 15 سال گزارے ہوں یا بھر 7 سال تک تعلیم حاصل کی ہو ،وہ ڈومیسائل کے اہل ہوں گے۔ جس کے ذریعے وہ سرکاری نوکری جوکہ زراعت کے بعدسب سے زیادہ اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے ، کیلئے درخواست دے سکیں گے۔اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں 1952 کے شہریت کا قانون لاگو تھا جس کے تحت سرکاری ملازمت صرف کشمیر کے مستقل رہائشیوں کیلئے مختص تھیں۔ اس قانون کے تحت مودی حکومت انتہاپسند ہندﺅں کو یہاں بسا کر ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری لاک ڈاو ¿ن کے سبب کنسٹرکشن انڈسٹری کو روزانہ 29کروڑ32لاکھ کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ اگست2019سے اب تک یہ نقصان 161کروڑ26لاکھ تک جا پہنچا ہے۔

دستکاری اور قالین کی صنعت:

مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی شب خون کے بعد سب سے زیادہ نقصان دستکاری و قالین کی صنعت کو پہنچا ۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق اس صنعت سے وابستہ تقریبا ایک لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوئے جنھیں آج تک کوئی مناسب روزگار نہیں مل سکا۔ عام طور پر قالین کے بیشتر آرڈربیرون ملک سے جولائی سے ستمبر کے دوران آتے ہیں، تاکہ وہ کرسمس تک قالین بنا کر آرڈر مکمل کر سکیں۔ تاہم بھارتی فوج کی چڑھائی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد بیرون ممالک سے آڈرز میں 80فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

جس کے باعث اس صنعت کو روزانہ کی بنیاد پر 13کروڑ22لاکھ روپے کا نقصان کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ اگر لاک ڈاو ¿ن کے بعد سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے تو یہ 72ارب 71کروڑ روپے بنتا ہے۔

نو منتخب صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ارون گپتا نے کہا کہ 5اگست 2019 کے بعد اور کووڈ کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں تاجروں، ہوٹل والوں، ٹرانسپورٹروں اور صنعت کاروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سی سی آئی کے صدر ارون گپتا نے کہا ”مقبوضہ جموں و کشمیر میں خاص طور پر آرٹیکل 370اور آرٹیکل35اے کو ختم کرنے کے بعد تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور ہوٹلوں میں کاروبار کرنے والوں کے لئے خصوصی مراعات ہونی چائیں کیونکہ ہمیں زیادہ تر نقصان اٹھانا پڑا ہے اور حکومت ہند بھی اس بارے میں جانتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو چاہئے کہ وہ مراعات دیں ۔ ہمارے پاس 5اگست 2019 اور کووڈ19 صورتحال کے بعد تاجروں، ہوٹلوں، ٹرانسپورٹروں اور صنعت کاروں کو ہونے والے کل نقصانات کے اعدادوشمار نہیں ہیں۔ ہم تاجروں کو ہونے والے نقصانات کا حساب کتاب کر رہے ہیں۔“ انہوں نے کہا ”میں نے وزیراعظم نریندرا مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ تاجروں، ہوٹل والوں اور ٹرانسپورٹروں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے ان سے خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا جا سکے۔“ سی سی آئی کے صدر نے کہا ”مجھے نہیں لگتا کہ مقبوضہ جموں کے خطے اور مقبوضہ کشمیر کے خطے کے تاجروں کے مابین کوئی اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ہم اب بھی دوستانہ تجارت کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آب و ہوا کی صورتحال اور جموں سری نگر ہائی وے پر وسیع کام نے کسی طرح تجارت کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے سامان کی نقل و حمل میں تاخیر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12ماہ تک جموں سرینگر شاہراہ عام طور پر تودے گرنے، برف باری اور چوڑا کام کے سبب دو ماہ تک متاثر رہتی ہے۔“انہوں نے مزید کہا، ”تاہم ہم پورے 10ماہ تک کشمیر کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں۔“اس سے قبل انہوں نے کہا کہ ”کووڈ19کے دوران دونوں خطوں کی تجارت متاثر ہوئی چاہے وہ سیاحت کی صنعت، سیاحت، ٹرانسپورٹرز، ہوٹلوں اور ریستوراں کی ہو۔ ان سبھی کو بری طرح سے نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں حکومت دونوں خطوں کے تاجروں سمیت ان کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے ۔