اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم نے حکومت سنبھالی تو کئی مسائل ورثے میں ملے لیکن چیلنجز کے باوجود طرز حکومت میں نئی روایات دیکھنے کو ملیں۔ عمران خان نے کفایت شعاری کو اپنایا اور وزراء سے سخت جوابدہی کا نظام متعارف کرایا۔ وزیراعظم کے بنائے تحقیقاتی کمیشنز کی رپورٹس میں ان کے اپنے قریبی ساتھی بھی زد میں آئے۔
دو سال کے دوران حکومت میں تحریک انصاف نے چیلنجز کے باوجود طرز حکمرانی کی نئی بنیاد ڈالی۔ وزیراعظم ہاوس سمیت وزراتوں کے اخراجات میں نمایاں کمی کی گئی۔ وزیراعظم نے اپنے دفتر کے علاوہ کوئی کیمپ آفس نہیں بنایا۔
ماضی کے وزرائے اعظم کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے توترا کے ساتھ کابینہ اجلاس یقینی بنائے اور تمام اہم فیصلے کابینہ کی منظوری سے کرنے کے قانونی اور آئینی تقاضے پورے کیے۔ پہلی بار وفاقی وزراء کو مسلسل اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کا پابند بنایا گیا۔
وزیر اعظم عمران نے مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے آٹا اور چینی بحران کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی اہم شخصیات بھی اس کی زد میں آئیں۔
آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں کی تحقیقات کے لیے بھی کمیشن بنایا گیا۔ حکومت نے پسے ہوئے طبقات کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے۔ اس مقصد کے لیے احساس پروگرام کو بھرپور انداز میں فعال بنایا گیا اور نقد ماہانہ وظیفے کے ساتھ لنگر خانوں اور پناہ گاہیں بنائی گئیں۔
معاشی، سفارتی اور داخلی چیلنجز کے باجوہ حکومت نے تمام اداروں کیساتھ مثالی ہم آہنگی قائم رکھی اور اہم اہداف کے حصول میں سول اور عسکری قیادت ایک پیچ پر نظر آئی۔
کورونا وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اداروں کیساتھ مل کر حکومت نے ایک مربوط پالیسی واضح کی اور وزیر اعظم کی قیادت میں پاکستان ایک بڑی جنگ جیتی جس کا اعتراف عالمی دنیا نے بھی کیا۔
حکومت کے دو سال جہاں چیلنجز سے بھرپور رہے وہیں وزیراعظم عمران نے روایتی طرز حکومت کے برعکس اپنے منشور کے مطابق احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر کیا اور ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی کو یقینی بنایا۔