کورونا کے حوالے سے کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آ رہی

Last Updated On 05 June,2020 08:46 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کورونا وائرس کے حوالے سے ظاہر کئے جانے والے تمام خطرات اور خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے سو دنوں میں 85 ہزار 899 مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے، جس نے ملک میں ایک خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دی ہے اور اب کورونا کے حوالے سے کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آ رہی گو کہ کورونا خطرے کی ایسی گھنٹی بن چکا ہے جس پر سب کے کان کھڑے ہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑ چکی ہے، اوپر سے اس بات نے اور زیادہ پریشانی پیدا کر دی ہے، موت سروں پر ناچتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس خطرناک اور جان لیوا رجحان کے آگے بند باندھنا ہے یا ہاتھ اوپر کھڑے کرنے ہیں۔ کیا حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً عوام نے اس وبا سے نمٹنے کیلئے کس حد تک کردار ادا کیا ہے اور یا ایسے اقدامات ہیں جن پر عمل پیر ا ہو کر اس خطرناک رجحان پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے ؟۔

جہاں تک حکومتی ذمہ داری کا سوال ہے تو اس حوالے سے منتخب حکومت کٹہرے میں کھڑی نظر آ رہی ہے، کیونکہ آج کے دن تک اس کی کنفیوژ پالیسی نے صورتحال میں بہتری کی بجائے ابتری پیدا کی ہے۔ اس رجحان کے آنے کے بعد لاک ڈاؤن کی گردان تو ہر سو جاری نظر آئی مگر یہ کہیں لاک ڈاؤن کے حق میں تھی تو کہیں لاک ڈاؤن کے خلاف۔ کہیں سخت لاک ڈاؤن کی بات ہو رہی تھی اور کہیں نرم لاک ڈاؤن پر زور دیا جا رہا تھا اور حقیقتاً اس صورتحال نے کورونا کے بحران کو بڑے طوفان کا رنگ دیا اور بات اکا دکا کیسز سے پہلے سینکڑوں اور اب ہزاروں میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت پر الزام بھی لگا کہ وہ قوم کو اس بحران سے بچانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ اس کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات خصوصاً نرم و سخت لاک ڈاؤن کے عمل سے وہ وائرس کے آگے بند تو نہ باندھ سکی مگر اس سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گومگو کی صورتحال نے خود حکومت کو اپوزیشن کو اور متعلقہ اداروں کو بھی کنفیوژ بنائے رکھا اور اس کی بڑی وجہ خود وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وہ تحفظات تھے جو وہ دیہاڑی داروں، محنت کشوں، رکشہ، ویگن ڈرائیوروں کے حوالے سے کرتے نظر آئے کہ ان کی روٹی، دال کا بندوبست ہونا چاہئے۔ ان کا چولہا جلتا رہنا چاہیے۔ ان کی نیت اپنی جگہ لیکن بڑی اور تلخ حقیقت یہی ہے کہ عید الفطر سے قبل ہونے والے لاک ڈاؤن میں نرمی کے عمل نے کورونا کو آپے سے باہر کر دیا اور آج کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نظر نہیں آ رہا۔ ابھی تو دیہی آبادی کسی حد تک اس وائرس سے محفوظ نظر آ رہی ہے۔ جہاں لاک ڈاؤن نام کی چیز نہیں نہ ہی ایسا ممکن تھا کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا مقابلہ یورپی ممالک سے نہیں کیا جا سکتا، جہاں آبادی تھوڑی اور لوگ خوشحال ہی نہیں بلکہ باشعور بھی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ یہاں لاک ڈاؤن تھا بھی اور نہیں بھی۔ لہٰذا اس حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ حکومت کی جانب سے اپنے احکامات پر عملدرآمد ممکن نہ تھا۔ بحیثیت حکومتی رٹ مضبوط اور مؤثر نہیں ہوگی تب تک نہ لاک ڈاؤن پر عملدرآمد ہوگا نہ ایم او یوز پر اور نہ ہی عوام میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اب جبکہ اموات کا رجحان خطرناک زون میں آ گیا ہے ابھی تک عوام میں وہ تحریک محسوس نہیں کی جا رہی جو اس وائرس سے بچنے کیلئے ضروری ہے اور جو ذمہ داری حکومت پر خود اپنے ہی انعامات پر عملدرآمد کے حوالے سے ہے وہ بھی پوری نہیں کی جا رہی تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت بھی پسپائی اختیار کر رہی ہے، آخر وہ وجوہات سامنے آنی چاہئیں کہ ایک طرف ہم ہر آنے والے دن میں خطرناک صورتحال سے دو چار ہوتے جا رہے ہیں، ہمارے لوگ مر رہے ہیں، بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت دفاعی انداز تو اختیار کئے ہوئے ہے مگر کچھ کرتی نظر نہیں آ رہی اور آہستہ آہستہ یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ خود حکومت نے اپنی انتظامی نا اہلی پر ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں اور چند روز پہلے تک لگنے والا یہ نعرہ کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، اب عملاً یہ صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے کہ کورونا سے ڈرنا بھی نہیں اور لڑنا بھی نہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے وائرس سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل یقینی بنائے۔