لگتا ہے افغان امن معاہدہ عملدرآمد سے قبل ہی کٹھائی میں پڑ گیا

Last Updated On 04 March,2020 08:58 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار اور جواباً طالبان کی جانب سے انٹرا افغان ڈائیلاگ افغان قیدیوں کی رہائی سے مشروط کرنے کے اعلان سے لگتا ہے کہ افغان امن معاہدہ عملدرآمد سے قبل ہی کٹھائی میں پڑ گیا، ایسا کیوں ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا معاہدے کے فریقین آنے والے وقت میں طویل مشاورت کے بعد ہونے والے اس معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنا پائیں گے ؟ یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ اگر معاہدے پر پیش رفت نہیں ہوئی تو اس کے ذمہ دار بظاہر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان صدر اشرف غنی بنتے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات سے پہلے اپنی عوام کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ تمام تر تحفظات کے باوجود انہوں نے طالبان سے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا اور مذاکرات میں اونچ نیچ آنے کے باوجود اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے براہ راست اپنا کردار ادا کیا۔ اس امر کے دوران یہ بھی خدشہ تھا کہ اس معاہدے پر خود امریکا کے ذمہ داران میں خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ اس عمل کے ذریعہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ جیسے امریکی افواج شکست کھا کر بے عزتی سے واپس آ رہی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی مرحلہ پر صدر ٹرمپ اس بے عزتی پر اس معاہدے سے پسپائی اختیار کر سکتے ہیں تو دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کی حکومتی رٹ اس روز سے بری طرح متاثر ہوئی جب سے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا۔ مذاکراتی عمل آگے بڑھتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کے احکامات متاثر ہوتے رہے، یہی وجہ تھی کہ افغان صدر اشرف غنی اس سارے عمل کے دوران طالبان کی حیثیت و اہمیت کم کرنے کیلئے ان پر براہ راست الزامات کی بوچھاڑ کرتے نظر آئے۔

جہاں تک افغان انٹرا ڈائیلاگ کا سوال ہے تو اصل ایشو اب یہ ہے کہ افغان فورسز کو اس معاہدہ پر کیسے لایا جائے اور یہ ذمہ داری کسے اٹھانی ہوگی۔ پاکستان نے پہلے بھی امریکا طالبان مذاکراتی عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خود اس کا علاقائی استحکام افغانستان میں امن سے مشروط ہے اور یہی خیال اور تحریک علاقائی فورسز چین، روس سمیت دیگر قوتوں کی تھی لہٰذا لگتا یوں ہے کہ اب واشنگٹن سے زیادہ ذمہ داری اسلام آباد اور کابل کی ہوگی کہ افغان امن عمل کو یقینی بنایا جائے۔ افغانستان کی دیگر فورسز کو تو معاہدے کے بعد پیغام مل چکا ہے کہ انہیں طالبان سے معاملات طے کرنے ہیں اور یہ عمل غیر علانیہ طور پر شروع بھی ہے مگر افغان صدر اشرف غنی اس لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کہ ان کے پیچھے بھارت ہے۔

افغانستان میں طالبان کا نظم و نسق بھارت ہضم نہیں کر پا رہا کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہماری افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا کوئی مستقبل نہیں رہا اور خصوصاً افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے ذمہ دارانہ کردار کی وجہ سے پاکستان کا قد بڑھا ہے۔ پاکستان کے اس کردار کو عالمی اور علاقائی محاذ پر سراہا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت جیسی بڑی طاقت اندرونی و بیرونی ملک اپنے چھوٹے پن کی وجہ سے جگ ہنسائی کا ذریعہ بنی ہے اور اس کیلئے افغانستان میں اب اشرف غنی کے علاوہ اسکا کوئی سہارا نہیں لہذا اشرف غنی اس کے مفادات کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے نظر آ رہے ہیں لیکن نوشتہ دیوار یہ لگ رہا ہے کہ امریکا نے جو کچھ کیا اپنے مفادات کیلئے کیا۔ امریکی صدر کی آنے والے انتخابات پر نظر ہے، وہ اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں لہذا وہ اپنی کٹھ پتلی کو یہ اختیار نہیں دینگے کہ اپنے ہی معاہدہ سے انحراف کی جرات کرے۔