اشرف غنی کا دوبارہ انتخاب، افغانستان کے حوالے سے کتنا اہم

Last Updated On 23 December,2019 03:16 pm

لاہور (تجزیہ: سلمان غنی) افغان الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات میں دوسری مرتبہ اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ عبداﷲعبداﷲ نے مذکورہ انتخابی نتائج کو دھاندلی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں انتخابات کے نتائج اور صدر اشرف غنی کے انتخاب سے کیا افغانستان میں امن عمل آگے بڑھے گا۔ خود صدر اشرف غنی کی افغانستان میں حیثیت اور اہمیت بڑھے گی۔ امریکہ طالبان مذاکراتی عمل پر اس کے کیا اثرات ہوں گے اور کیا نومنتخب صدر کا مستقبل کے افغانستان میں کیا کردار ہوگا۔

افغانستان کے حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو دراصل امریکی آشیرباد حاصل تھی اور امریکہ ان کے ذریعہ افغانستان پر اپنے تسلط کا خواہاں تھا مگر طالبان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور افغانستان کے مختلف صوبوں پر ان کے قبضہ کے بعد نہ صرف یہ کہ افغان انتظامیہ کی اپنی گرفت افغانستان پر کمزور ہو کر رہ گئی بلکہ یہاں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور جن طالبان کو اپنے سیاسی انجام پر پہنچانے کیلئے امریکہ نے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ اس میں ناکام رہا اور اب اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کی رٹ کے حوالہ سے رپورٹس گواہ ہیں کہ وہ کابل تک محدود رہے اور طالبان نے کابل میں بھی ان کی گرفت کو کمزور کرنے کیلئے بڑے حملے کئے ہیں۔

اشرف غنی انتظامیہ اور ان کی ساکھ کو اصل نقصان اس وقت پہنچا جب امریکہ نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے افغانستان میں اپنے مفادات خصوصاً امریکی افواج کی واپسی کیلئے براہ راست طالبان سے امن مذاکرات کا آغاز کیا جس پر بھارت اور خود اشرف غنی انتظامیہ واویلا کرتے نظر آئے لیکن امریکہ نے ان کے احتجاج اور ردعمل سے صرف نظر برتتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کے نوادوار مکمل کئے اور اس حوالہ سے امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد متحرک رہے لیکن مذکورہ مذاکرات کی نتیجہ خیزی اس وقت متاثر ہوئی جب خود پینٹاگون اور ٹرمپ انتظامیہ کے بعض ذمہ داران نے بھی طالبان سے مذاکرات اور امن معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر صدر ٹرمپ نے کابل پر طالبان کے ایک حملہ کو جواز بناتے ہوئے امن مذاکرات موخر کر دیئے جس پر طالبان نے اپنے ردعمل میں کہا بالآخر خود امریکہ کو مذاکراتی عمل پر آنا پڑے گا۔

چند روز قبل صدر ٹرمپ نے بٹگرام ایئر بیس پر اپنی افواج سے ملاقات کے دوران ایک مرتبہ پھر طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا اور زلمے خلیل زاد اس کیلئے پھر سے متحرک ہو گئے۔ زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں کابل میں صدر اشرف غنی اور دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور طالبان سے ہونے والے امن مذاکرات پر اعتماد میں لیا کیونکہ طالبان اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات کے حوالہ سے واضح موقف رکھتے ہیں کہ امن معاہدے کے باقاعدہ اعلان کے بعد ہی وہ صدر اشرف غنی اور دیگر افغان گروپوں سے معاملات طے کریں گے۔ اب جبکہ تین ماہ بعد افغانستان میں صدارتی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے اور صدر اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے تو سوال پھر یہی کھڑا ہوگا کہ کیا پہلے صدر اشرف غنی افغان صدر نہیں تھے، ان کا افغانستان میں کس حد تک انتظامیہ پر اور سیاسی کنٹرول تھا۔ ان کی حکومت اور اس کی رٹ کہاں تک تھی اور اگر واقعی صدر اشرف غنی افغانستان پر اپنا سیاسی کنٹرول رکھتے تھے اور امریکی مفادات کی تکمیل کو یقینی بنانے میں ان کا کردار تھا تو پھر امریکہ کو اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ بیٹھنے اور امن عمل کے حوالہ سے پیشرفت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور امن عمل کے حوالہ سے طالبان سے مذاکرات میں امریکہ نے اشرف غنی کو کیونکر اعتماد میں نہیں لیا۔

لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ صدر اشرف غنی انتظامیہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی حکومت کی تھی اور ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ افغانستان پر اپنا سیاسی اور انتظامی کنٹرول نہیں رکھتے بلکہ آنے والے وقت میں بھی انہیں کوئی بڑا کردار نہیں مل سکے گا البتہ امریکہ اس امر کا خواہاں ضرور ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کو مستقبل کے سیٹ اپ میں کوئی کردار ملنا چاہیے لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اشرف غنی امریکہ طالبان معاہدہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے اس حوالہ سے کوئی مثبت کردار ادا کرینگے کیونکہ ایسی رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں کہ بھارت افغانستان میں ایسے امن کو اپنے لئے خطرناک سمجھتا ہے جو پاکستان کی کوششوں اور کاوشوں کی صورت میں رونما ہو اور یہ حقیقت اس پر قیامت بن کر ٹوٹتی ہے جب انہوں نے دیکھا کہ افغان طالبان اور خود پاکستانی کردار کو ٹارگٹ کرتے ہوئے افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار انہیں گرداننے والے صدر ٹرمپ کو پاکستان کی اس پالیسی کو فالو کرنا پڑا کہ افغانستان کے مسئلہ کا سیاسی حل ہی بہترین حل ہے اور اس حل کیلئے افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت طالبان ہیں، ان سے مذاکرات کرنا ہونگے۔

بھارت سمجھتا ہے کہ افغانستان پر طالبان کا راج خود بھارت کے حوالہ سے خطرناک ہے لہٰذا وہ اپنے مذموم ایجنڈا کو آگے بڑھانے کیلئے صدر اشرف غنی کے ذریعہ امن مذاکرات پر اثرانداز ہوتا آیا ہے لیکن یہ کوششیں اور کاوشیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے طالبان سے مذاکرات اور اس کی نتیجہ خیزی کیلئے سرگرم ہے جو اگلے چند ہفتوں میں ممکن ہے اور پاکستان علاقائی امن اور خود اپنے استحکام کیلئے افغانستان میں ایک ایسے سیٹ اپ کا خواہاں ہے جسے افغان عوام کی تائید و حمایت حاصل ہو تاکہ افغانستان میں امن اور استحکام قائم ہو سکے لہٰذا افغانستان کے مستقبل کی منصوبہ بندی میں صدر اشرف غنی ایک فریق تو ہیں لیکن بنیادی فریق طالبان ہیں اور طالبان کی تائید و حمایت کے بغیر اشرف غنی کا یہاں کوئی مستقبل نہیں لہٰذا اب دوبارہ صدر کے طور پر انتخاب کے بعد گیند اشرف غنی کی کورٹ میں ہے کہ انہیں افغانستان میں امن عزیز ہے اور اگر وہ اس کے خواہاں ہیں تو انہیں امن عمل میں معاون بننا ہوگا اور امن معاہدہ کو قبول کرنا پڑے گا کیونکہ افغانستان میں امن عمل صرف امریکی کوششوں سے ہی نہیں چل رہا بلکہ علاقائی قوتوں روس، چین، ایران اور ترکی کی بھی خاموش تائید حاصل ہے۔

علاقائی قوتوں سمیت امریکہ بہادر اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ طالبان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں اور طالبان کو بھی امن معاہدہ کی صورت میں دیگر قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ صدر اشرف غنی کا دوبارہ صدر کے منصب پر انتخاب ان کیلئے تو خوشی کا باعث ہوگا لیکن اس کے اثرات خود یہاں امن کے قیام، افغانستان کے حالات اور مستقبل کے حوالہ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، اگر اس حوالہ سے ان کا کوئی کردار ہوتا تو ماضی کے افغانستان میں بدامنی، لاقانونیت، انتہا پسندی، شدت پسندی کے رجحانات کو اتنی تقویت نہ ملتی اور ان کی حکومت کی ساکھ نظر آتی اگر خود ان کا سرپرست امریکہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہوتا اور یہاں امن کے حوالہ سے ان سے توقعات قائم رہتیں تو وہ کبھی طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھنے کیلئے مجبور نہ ہوتا لہٰذا امریکہ کا تو فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے ہر قیمت پر اپنی افواج کا انخلا کرنا ہے جس کا عمل جاری ہے لہٰذ امن معاہدہ کا اعلان افغانستان میں امن کے قیام میں معاون بن سکتا ہے جس کی کامیابی کیلئے تمام قوتوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔