مشرف کی سزا پر عملدرآمد کیسے رک سکتا ہے ؟

Last Updated On 19 December,2019 08:33 am

اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر کسی عدالت کا فیصلہ اپنے حتمی مراحل طے کر جائے تو پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسے کالعدم قرار دے دے۔

آئینی امور اور فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل امجد شاہ نے کہا کہ آئین شکنی کے مقدمے میں پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے پر 2016 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا، اس لیے ان حالات میں ایک عام ملزم اور پرویز مشرف میں بڑا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشتہاری قرار دینے اور بارہا پیش ہونے کے عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ سابق فوجی صدر کا حق دفاع ختم کر چکی تھی۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مقررہ 30 دنوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرتے تو پھر خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہی حتمی سمجھا جائے گا۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے وفاقی حکومت جب چاہتی اس مقدمے کو واپس لے سکتی تھی کیونکہ قانون کے مطابق استغاثہ جب چاہے اپنی درخواست واپس لے سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ بھی پرویز مشرف کو ملنے والی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے اور اٹارنی جنرل حکومت کو یہ رائے دیں کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو وفاق اس پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ جب وہ اٹارنی جنرل تھے تو اس وقت اُنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہونے دی تھی۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل فیصل چودھری نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے تو پھر ان کی عدم موجودگی میں خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہیں ہو سکتی۔ نیب کے مقدمات میں کسی ملزم کی عدم موجودگی میں فیصلے سنائے جاتے تھے لیکن اس اقدام کو بھی سپریم کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل انور منصور نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے میں تمام آئینی ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ اپیل کی صورت میں سابق صدر کا عدالت میں دفاع کریں گے۔