شریف قیادت کی لندن روانگی، حکومت کیلئے ٹیک آف کا نیا موقع

Last Updated On 20 November,2019 08:40 am

لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے علاج کے ضمن میں لندن پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے ہمراہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف، ان کے معالج ڈاکٹر عدنان اور دیگر اہلخانہ موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کے معاملات پر پاکستان میں ایک سیاسی فضا طاری ہے ، ان کی بیرون ملک روانگی اور ان کی ملکی سیاست سے غیر موجودگی کی بنا پر ایک بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ شریف قیادت کی بیرون ملک روانگی کے پاکستانی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے ۔ کیا ان کی سیاسی اہمیت و حیثیت میں کمی آئے گی ؟ مسلم لیگ ن کے سیاسی اور تنظیمی معاملات کون چلائے گا ؟ کیا ن لیگ نواز شریف کے سیاسی بیانیہ پر ہی کار بند رہے گی اور رائیونڈ میں موجود مریم نواز کب تک خاموشی اختیار کئے رکھیں گی ؟۔

جہاں تک شریف قیادت کے بیرون ملک قیام کے دوران پاکستانی سیاست پر اثرات کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت و اہمیت و کمی اور اضافہ کا دارومدار خود حکومتی طرز عمل، ان کے اقدامات اور خود ان کی اپنی اہلیت پر ہے۔ اگر حکومت اپنے مینڈیٹ پر کار بند رہتے ہوئے ملک میں معاشی بحران سے نمٹ پاتی ہے اور معاشی صورتحال کی بہتری کی صورت میں معمولات زندگی بہتر ہوتے ہیں، لوگوں کو ریلیف ملتا ہے ، روزگار کے دروازے ان پر کھلنا شروع ہوتے ہیں، گورننس کا خواب حقیقت بننا شروع ہوتا ہے تو یقیناً اس کے اثرات اپوزیشن اور مسلم لیگ ن کیلئے اتنے نہیں ہوں گے لیکن اگر صورتحال اب تک کی حکومت کی پندرہ ماہ کی کارکردگی والی ہوگی تو اس کا الٹا اثر حکومت پر پڑے گا اور لوگ پھر چوروں، ڈاکوؤں کی حکومت سے پارساؤں کی حکومت کا موازنہ ضرور کریں گے۔

‘‘مینڈیٹ’’ کی حامل تحریک انصاف کی حکومت کے ابھی تک پاؤں لگے نظر نہیں آ رہے اور اب تو کیفیت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خود اتحادی بھی حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں خصوصاً چودھری شجاعت حسین جیسے آدمی اپنی حکومت کے حوالے سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کیفیت یہی رہی تو آنے والے تین چار ماہ میں کوئی وزیراعظم بننے پر تیار نہ ہوگا لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ شریف قیادت کی سیاسی اہمیت کا دارومدار خود حکومتی کارکردگی سے مشروط ہے اور شریف قیادت کی روانگی حکومت کی کارکردگی کیلئے ٹیک آف کا نیا موقع ہے اور اگر حکومت ڈلیور نہیں کر پاتی تو پھر ان کی علاج کیلئے بیرون ملک روانگی اور قیام کا ان کی مقبولیت اور اہلیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ملکی سیاسی تاریخ بتاتی ہے جنرل مشرف کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنے والا شریف خاندان جب وطن واپس آتا ہے تو لوگ پھر انہیں آنکھوں پر بٹھاتے نظر آتے ہیں اور ان کی نا اہلیت کے تمام تر اقدامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں وہ وزیراعلیٰ بھی بنتے ہیں اور وزیراعظم بھی اور پھر ان کی حکومت کیخلاف تمام تر ہتھکنڈوں، ان کی قیادت کیخلاف مقدمات ، جیلوں اور فیصلوں کے باوجود انتخابات میں انہیں بھرپور پذیرائی ملتی ہے۔

جہاں تک خود مسلم لیگ ن کے معاملات اور پاکستان میں موجود قیادت کے کردار کا سوال ہے تو یہ ان کیلئے بھی بڑا سیاسی چیلنج ہے، جہاں تک سیاسی محاذ پر ڈیل اور ڈھیل کی خبروں اور تبصروں کا سوال ہے تو اس میں بظاہر کوئی حقیقت نظر نہیں آتی، لیکن زیادہ پریشان اس حوالے سے حکومت ہے اپوزیشن نہیں ،البتہ خود وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اختیار رکھے جانیوالے طرز عمل سے ضرور یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جہاں تک نواز شریف کے بیانیہ پر کاربند رہنے کا سوال ہے تو بظاہر یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ان کے اس بیانیہ کو پذیرائی ملی ہے اور ملے گی، البتہ ایک تبدیلی جو محسوس کی جا رہی ہے کہ جو قوتیں تحریک انصاف اور اس کی قیادت سے امیدیں اور توقعات باندھے انہیں اقتدار میں لانے میں معاون بنی تھیں اب وہ پہلے والا سلسلہ نظر نہیں آ رہا، لہٰذا مذکورہ صورتحال میں ن لیگ نہیں چاہے گی کہ ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ ماضی کی طرح قائم رکھے۔ بلکہ مذکورہ صورتحال میں اپنے لئے راستہ بنانے کی کوشش مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف جاری رکھے ہوئے ہیں اور جاری رکھیں گے۔

البتہ یہ کوشش اب تک اس لئے کارگر اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکی کہ اسٹیبلشمنٹ کے محاذ پر ن لیگ کی جانب سے سرگرم کردار چودھر ی نثار اس میں نظر نہیں آ رہے جو شہباز شریف کیساتھ ملکر ہمیشہ جماعت کو بحرانوں سے نکالنے مسند اقتدار پر پہنچانے اور کسی بھی گھمبیر صورتحال میں حکومت اور اداروں کو ایک پیج پر لانے میں سرگرم دکھائی دیتے تھے۔ نئے حالات میں مریم نواز کے سیاسی کردار اور موجودہ صورتحال میں ان کی جانب سے اختیار کی جانیوالی خاموشی کا تعلق ہے تو فی الحال اس کی وجہ خود ان کے والد کی بیماری ہے اور فی الحال خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا مستقبل کی سیاست میں ان کے آگے بند باندھنا مشکل ہوگا اور آنے والے انتخابات میں وہ اپنے والد کے سیاسی کردار، قومی جذبات اور جدوجہد کو بنیاد بناتے ہوئے مخالفین کیلئے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئیں گی اور اس عمل میں خود شہباز شریف کی تائید و حمایت انہیں حاصل ہوگی۔