ملکی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ جنرل قمر جاوید باجوہ

Last Updated On 20 August,2019 11:30 am

لاہور: (صہیب مرغوب) فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب 29 نومبر 2016ء کو پاکستان کے دسویں چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا تو ملک اس وقت دہشتگردوں کیخلاف جنگ لڑ رہا تھا، اسے اندرونی اور بیرونی محاذ پر کئی چیلنجز درپیش تھے۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے ان چیلنجز سے نبٹنے کیلئے آپریشن ضرب عضب کی صورت میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ جنگ آخری مرحلے میں تھی۔ سیاسی طور پر ملک انتشار کا شکار تھا۔ پانامہ سکینڈل کی گونج نے ماحول کو پراگندہ کر رکھا تھا۔ مردم شماری 1981ء کے بعد سے لٹکی ہوئی تھی۔ ہم کتنے ہیں ؟ یہ ہمیں معلوم ہی نہ تھاجس سے این ایف سی ایوارڈ اور قومی وسائل کی تقسیم بھی مسائل سے دوچار تھی۔ سابقہ حکومت کی باتوں سے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین ہم آہنگی کا فقدان نظر آ رہا تھا۔ یہ وہ حالات تھے جب جنرل قمر جاوید باجوہ نئے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔

اسی طرح بیرونی محاذ پر ہمارے تعلقات بھی اچھے نہ تھے، امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ہمیں کئی پیچیدگیوں کا سامنا تھا، افغان مسئلے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو لے کریہ تعلقات اتار چڑھائو کا شکار تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ بھی کچھ مشکلات درپیش تھیں، ہم اس خطے کے بارے میں مناسب خارجہ پالیسی بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے انہیں اگلے تین برسوں کے لیے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کو مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کئی چیلنجز درپیش ہیں اور جنرل قمرجاوید باجوہ ان چیلنجز کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقا ت اس وقت پیچیدہ ترین رخ اختیار کر چکے ہیں۔ عالمی سطح پر ملک کو تیزی کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ بدلی ہوئی صورتحال میں جرنیل بدلا نہیں کرتے یہی چیف آف آرمی سٹاف کا پیشہ ورانہ تسلسل، امور کشمیری سے مکمل آگاہی، بلوچستان کی صورتحال کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس ماحول میں انہوں نے ابتدائی تربیت بھی حاصل کی تو ایسے میں انہیں توسیع دینا ایک لازمی امر تھا۔

جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے اس ماحول میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک جرأت مند فوجی سربراہ کی حیثیت سے پاک فوج کی کمان سنبھالی۔ انہوں نے اگرچہ پاک فوج میں شمولیت 1978ء میں کی تھی، ملٹری اکیڈیمی کاکول سے آپ نے سیکنڈ لیفٹیننٹ میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد بلوچ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی، ان کی تقرری سیالکوٹ میں ہوئی، جبکہ 1992ء میں انہوں نے آزاد کشمیر میں نادرن لائٹ انفنٹری ریجمنٹ جوائن کر لی بعد ازاں مختلف عہدوں پر ترقی کرنے کے بعد انہیں کانگو میں بریگیڈ کمانڈر کے طور پر بھی کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا۔ انہوں نے وہاں 2012ء سے 2014ء تک خدمات سرانجام دیں۔ اس طرح انہیں نا صرف ملکی حالات کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہوئی بلکہ بیرون ملک اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے بھی اچھی شناسائی ہوئی۔ یوں بھی فوج ان کے خون میں رچی بسی ہے۔ ان کے والد محمد اقبال باجوہ فو ج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے اور اسی حیثیت سے کوئٹہ میں خدمات انجام دیتے وقت 1967ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ جنرل قمر جاوید باوجوہ کو بلوچستان کے حالات بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔آپ کے سسر اعجاز احمد بھی میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ یوں والد اور سسرال کی طرف سے فوج آپ کے خون میں رچی بسی ہے۔

ماضی کو اگر ہم دیکھیں تو بھارت نے جب پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا اور ایک ڈرامہ رچایا تو جنرل صاحب نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ یہ سرپرائز اسی سال 26 فروری کو پاک فوج اور فضائیہ نے ان کے دو طیارے گرا کر دے دیا۔ پاک فوج نے بھارتی فضائیہ کا وہ پائلٹ (ابھی نندن) حراست میں لے لیا جسے بعض بھارتی میڈیا کے مطابق ایٹمی حملے کے لیے تربیت دی گئی تھی۔ بھارتی فضائیہ کے بہترین پائلٹ کو حراست میں لے کر جنرل قمر جوید باجوہ نے بھارت کو یہ سبق دیا کہ پاک فوج کسی بھی در اندازی سے نبٹنے کیلئے پوری طرح سے تیار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی سازش کے فوراً بعد ہماری سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں جنرل صاحب نے بتایا کہ پاک فوج مکمل طور پرتیار ہے۔ وہ دشمن کی کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور وہ سیاسی حکومت کے فیصلوں میں سیاسی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان نے کشمیری آواز کے ساتھ یکجہتی کیلئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کمی کر دی۔ ان کے سفیر کو نکال دیا اور تجارتی تعلقات معطل کر دئیے، پاکستان نے پوری طرح غوروفکر کے بعد ٹرین اور بس سروس بھی معطل کر دی۔ یہ بھارت کو ایک سبق تھا۔ جنرل صاحب کشمیریوں کی حمایت میں ڈٹ گئے ہیں۔

اسی طرح جب امن کی بات ہوئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ جب کرتار پور راہداری کھولنے کی بات ہوئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہر طرح سے اندرونی اور بیرونی سلامتی کو یقینی بنا کر راہداری کھولنے کی یقین دہانی کرائی ۔ راہداری کھولنے پر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ جس کے بعد امن کی کوشش یقینی بناتے ہوئے قومی سلامتی کے تمام اقدامات کر لیے گئے۔ یوں راہداری کا خواب بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے کے قریب ہے۔


چیف آف آرمی سٹاف نے 24جولائی 2019ء کو امریکہ کے اہم دورے کے موقع پر واشنگٹن میں اہم ملاقاتیں کیں جہاں انہیں 21توپوں کی سلامی دے کر مثالی پروٹوکول دیا گیا۔ اس موقع پر انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل جوزف، قائم مقام وزیر دفاع رچرڈ سپنسر اور جوائنٹ چیف آف جنرل سٹاف مارک میلے سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی اور یہ اپنی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ گئے۔ اس کا ثبوت تو اسی وقت مل گیا تھا جب پینٹا گان نے 21 توپوں کی سلامی دی۔ مذاکرات میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات بھی زیر بحث آئے اور افغان مسئلے پر پیش رفت کا اعتراف امریکی حکام نے بھی کیا۔ امریکی لیڈر شپ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کے کر دار کو سراہا ۔ کئی برسوں کے بعد یہ ایک انتہائی اہم تبدیلی تھی کیونکہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ صدر ٹرمپ نے سابقہ حکومت کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعظم عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کی کوششوں سے صدر ٹرمپ نے بھی پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم اور سابق امریکی جنرل گیک لین نے بھی علاقائی سلامتی میں دونوں ممالک کے کردار کو سراہا۔ بلکہ دونوں امریکی فوجی افسروں نے یہ بھی کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی کوششوں سے پاکستان میں سلامتی کی صورتحال بہت بہتر ہو گئی ہے اور اب غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بہترین مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ کسی امریکی جنرل کی جانب سے پاکستان کی خدمات کا یہ ایک انتہائی اہم بیان تھا جس سے بیرون ملک معاشی حلقوں میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی۔

یہی نہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد 18 دسمبر 2016ء کو سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے بھی چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ بات چیت میں دونوں ممالک کے درمیان بہتر سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کو اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان اور سعودیہ کے درمیان تاریخی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ سعودی فرمانروا نے علاقائی سلامتی میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب پر مسلم امہ میں استحکام پیدا کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے پاکستان کے حق میں ایسا زور دار بیان جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات کے بعد ہی منظر عام پر آیا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے میکانزم بنانے پر بھی غور کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے مقامات مقدسہ اور سلطنت سعودی عریبیہ کے مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ اس موقع پر انہوں نے ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی باہمی دلچسپی اور دو طرفہ سلامتی پر بھی مذاکرات کیے۔ اس شعبے میں بھی دونوں کے درمیان تعاون کے راستے تلاش کرنے پر غور ہوا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ سے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے سعودی عرب ہر طرح سے اپنی مدد اور حمایت کیلئے تیار ہے۔ اس موقع پر جنرل باجوہ نے سعودی افواج کے سربراہ جنرل عبد الرحمن بن صالح نے فوجی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنمائوں میں زیادہ سے زیادہ فوجی تعاون پر اتفاق رائے ہوا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کر دار ادا کیا۔ بھارتی لابی افواہیں پھیلا رہی تھی جن کا مقصد سی پیک کو نقصان پہنچانا تھا۔ مگر چیف آف جنرل سٹاف نے چین کے دورہ کے موقع پر چینی صدرژی ژن پنگ (Xi Jinping) اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں سلک روڈ منصوبوں کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا انہوں نے یقین دلایا کہ اگست میں عمران خان کی حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان اور چین میں تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ سی پیک کو معطل کرنے کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنی تھیں مگر جنرل باجوہ کے دورے کے بعد سی پیک پر زورو شور سے کام شروع ہوگیا۔ پاک فوج چینی سرمایہ کاری کو ہر طرح سے تحفظ دینے پر کاربند ہے اور وہ اپنے اس مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور یہی وجہ ہے کہ چینی رہنما مسلسل ہماری حکومت سے رابطے میں ہیں اور سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے۔ انہوں نے چینی رہنماؤں کیساتھ سلامتی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور سلامتی کے معاملات بھی زیر بحث آئے جس پر چین کو یقین ہو گیا کہ سی پیک مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اور یہ پاک فوج کی نگرانی میں آسانی کے ساتھ مکمل ہو سکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کے صدر سے بھی ملاقات کی جس میں ایک بار پھر پاک چین تعلقات زیر بحث آئے۔ اب تعلقات بلند ترین سطح پر ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ اس وقت بھی چینی رہنماؤں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں اور چینی صدر کو بھی انہوں نے یقین دلایا ہے کہ فوج اور حکومت سی پیک کی تکمیل کیلئے ایک پیج پر کھڑی ہے۔

2016ء میں ہمارے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ اس کی کی کچھ وجوہات تھیں۔ متحدہ عرب امارات بعض وجوہات کی بناء پر سابقہ حکومت سے ناراض تھا۔ لیکن جنرل صاحب کے پہلے ہی دورے کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کے سربراہ کے فرمانرواشیخ محمد بن راشد المکتوم کے ساتھ 18 اکتوبر 2016ء کو ملاقات کی۔ اس موقع پر پاکستان ، افغانستان، چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی زیر بحث آئے۔ ان کے دورے کے بعد متحدہ عرب امارات نے پاکستانی امیگرینٹس کو بھی سہولتیں مہیا کیں۔ انہوں نے شاہ یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردی کیخلاف اتحاد سے متعلق اجلاس میں بھی شرکت کی۔

اب ہم تھوڑا ذکر جنرل باجوہ کی اندرون ملک سیاسی خدمات کا کرنا چاہیں گے۔ پاکستان میں مردم شماری 1981ء سے مشکلات کا شکار تھی ۔ بار بار تاریخیں دینے کے باوجود یہ ہونہ سکی۔ اس کے بغیر قومی وسائل کی تقسیم مسائل سے دو چار تھی۔ لیکن جیسے ہی جنرل صاحب نے مردم شماری کیلئے اپنی افواج کی ڈیوٹیاں لگائیں تو یہ کٹھن مرحلہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اور جنرل صاحب کی کوششوں سے یہ دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوگیا اور آ ج ہمیں پتہ ہے کہ ہماری اصل آبادی کتنی ہے انہوں نے ایسی مردم شمار ی کرائی جو سب کیلئے قابل قبول تھی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عام انتخابات ہمارے لیے ایک مسئلہ رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے 2018ء کے انتخابات پر کسی نے کوئی اعتراض اٹھایا اور نہ کوئی نئی بات سامنے آئی اور یوں آرمی چیف کی مدد سے ہونے والے انتخابات شفاف ہوئے۔ پاک فوج نے ہر قسم کی مداخلت ختم کر کے منصفانہ انتخابات کرانے میں مدد دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان الیکشن کے بارے میں اب تک کوئی منفی بات سامنے نہیں آئی۔

اگر دیکھیں تو گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کو کئی سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جمہوری تسلسل اور استحکام کے لیے جنرل صاحب نے مکمل حمایت کا یقین دلایا کہ وہ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک کو کئی بار اتار چڑھائو کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی دفعہ افواہوں نے جنم لیا اور یہ کہا جانے لگا کہ حکومت جانے والی ہے۔ یہ قیاس آرائیاں پانامہ سکینڈل کے بعد سے سرگرم تھیں۔ فوج سیاست سے لا تعلق ہے اور لا تعلق رہنے کے باوجود قوم کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ پہلی اسمبلی نے اپنی معیاد پوری کی اب دوسری اسمبلی بھی انشاء اللہ اپنی معیاد پوری کرے گی۔ فوج سیاست سے الگ رہ کر جمہوری استحکام کے حق میں ہے اور اسی میں ملک کی بقاء ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کارہ میں اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہے، اور سب کا مقصد ملک کو مضبوط بنانا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج ماضی کی طرح مودی سرکار کیلئے ایک خوفناک عذاب کی مانند ہوگی۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے اور انشاء اللہ یہ مزید مستحکم اور مضبوط ہوگی۔