لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ ) پاکستان کی معیشت کو انتہائی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس مشکل صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو فی الحال حکومت کی جانب سے نظر نہیں آئیں، پاکستان کی کل آمدنی 5500 ارب روپے ہے اس بار 1676 ارب روپے دفاعی اخراجات ہیں، 3600 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ 2500 ارب روپے صوبوں کو دئیے جاتے ہیں بجٹ کا خسارہ تقریباً 600 ارب روپے ہے۔
مملکت پاکستان کا پورا خرچہ قرضوں اور ادھار پر چلتا ہے۔ مملکت کا کام چلانے کے لئے بینکوں اور غیر ملکی اداروں اور دوستوں سے قرض لیا جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس روزمرہ کا خرچ چلانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آج پاکستان کے اوپر 31 ہزار ارب روپے کے قرضے ہیں۔
اس حوالے سے معاشی ماہر فرخ سلیم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت بجٹ ترجیحات درست کرلے۔ 5500 ارب کی آمدن کافی ہے، 195 سرکاری کارپوریشنوں میں سالانہ تقریباً 1100 ارب خسارہ ہے، بجٹ 2018-19 میں دفاع کیلئے 1100 ارب روپے مختص کیے گئے، اس سال سرکاری کارپوریشنوں کا خسارہ بھی 1100 ارب روپے ہے، سرکاری کارپوریشنز کو برابر چلا پائیں تو دفاع کا بجٹ مفت نکل سکتا ہے، تخمینے کے مطابق 2 ہزار ارب روپے سے زائد سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔
فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت کی توجہ آمدن بڑھانے کے بجائے اخراجات کم کرنے پر کیسے ہے، حکومت اصلاحات کی بات کرتی ہے لیکن اس جانب عملی قدم نہیں اٹھاتی، حکومت سرکاری کارپوریشنز میں 550 ارب کا نقصان کرچکی ہے، پی ٹی آئی حکومت کے 137 روز میں گردشی قرضے 260 ارب بڑھے، چار پانچ سال پہلے گردشی قرضہ ایک ارب یومیہ بڑھتا تھا، آج دگنا ہوچکا، پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت 5 ارب روپے یومیہ قرضے لے رہی تھی، ن لیگ کی حکومت 7.7 ارب روپے یومیہ قرضہ لے رہی تھی، پی ٹی آئی حکومت نے 3 ماہ میں 15 ارب روپے یومیہ قرضہ لیا، سوال یہ ہے کہ اصلاحات پر فوکس کیوں نہیں ہے ؟ اصلاحات کی بات ضرور کی جاتی ہے ، مگر اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، پی ٹی آئی حکومت سے اصلاحات کی توقع اس لئے نہیں کہ مفادات کا بہت ٹکراؤ ہے۔
معاشی ماہر فرخ سلیم نے کہا کہ ہر روز ہمارے قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس کا اثر عام پاکستانی پر ہو رہا ہے اگر کسی کی ماہانہ آمدن 50 ہزار روپے ہے تو اس کا 15 فیصد گیس کے بل میں دینا پڑتا ہے، تقریباً 15 فیصد بجلی اور پٹرول میں چلا جاتا ہے اور پچھلے ایک سال میں ہمارا روپیہ 33 فیصد گر گیا ہے اب ایک گھریلو صارف کے پاس جو کچھ بچے گا اس سے دیگر تمام اخراجات کرنا ہوں گے اور پچاس ہزار روپے میں گھر کا بجٹ تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔