ساہیوال: (دنیا نیوز) قادر آباد کے قریب پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی فائرنگ سے ماں بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 3 بچے زخمی ہو گئے۔ ساہیوال واقعہ پر سی ٹی ڈی حکام کے بدلتے بیانات نے معاملہ مشکوک بنا دیا، کئی سوالات اٹھ گئے۔
ساہیوال کے مشکوک پولیس مقابلے میں دہشتگردوں کے خلاف لڑنے والی فورس کی اپنی ٹریننگ پر سوالیہ نشان لگ گیا، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی نے گاڑی روکنے کے بجائے فائرنگ کیوں کی؟ جبکہ اگر گاڑی رک گئی تھی تو اندھا دھند گولیاں کیوں برسائی گئیں؟
بڑی کارروائی کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اہلکار لاشیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ کیا سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کرائم سین کو محفوظ کیا؟
اہم سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا سی ٹی ڈی نے مارے جانے والے افراد سے متعلق مکمل معلومات لی تھیں؟ کیا مقصد صرف کار سواروں کی جان لینا تھا؟ گاڑی میں موجود معصوم بچوں اور خواتین کا خیال کیوں نہ کیا گیا؟ کیا جاں بحق ہونے والی تیرہ سالہ اریبہ بھی دہشتگرد تھی؟
زخمی بچی کے مطابق اس کا والد زندگی کی بھیک مانگتا رہا، سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار سواروں کو حراست میں کیوں نہ لیا؟
دوسری جانب مشکوک پولیس مقابلے کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ساہیوال واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی جس کی سربراہی ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کریں گے۔ ترجمان پولیس نے بتایا کہ جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کےافسران بھی شامل ہوں گے جب کہ جے آئی ٹی تین روز میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔