25 سے 30 بڑی گرفتاریوں کی اطلاعات ؟

Last Updated On 17 November,2018 08:49 am

لاہور: (سلمان غنی) قومی سیاست میں ایک مرتبہ پھر مؤثر احتسابی عمل کے لئے قومی احتساب کمیشن کی بازگشت سننے میں آئی ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ یکطرفہ احتساب نہیں چلے گا۔ احتساب ہونا ہے تو سب کا ہو صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے جس کیلئے قومی احتساب کمیشن قائم ہونا چاہئے، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کرنے والی ملک کی دو بڑی جماعتوں کی جانب سے آنے والی قومی احتساب کمیشن کی تجویز پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا۔

کیا واقعتا ملک میں جاری احتسابی عمل جانبدارانہ ہے ؟ احتساب کی ذمہ داری حکومت کی ہے یا نیب اور عدالتوں کو اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنا ہے ؟ کیا عوام الناس کے اندر بھی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف کوئی تحریک موجود ہے ؟ جہاں تک احتساب کمیشن کی تشکیل میں دونوں بڑی جماعتوں کے کردار کا تعلق ہے تو قومی احتساب کمیشن کے معاملہ پر دونوں نے نہ صرف اپنے اپنے دور حکومت میں صرف نظر برتا بلکہ ان ادوار میں بڑے بڑے کرپشن کے سکینڈلز پر نیب بوجوہ کوئی کارروائی نہ کر سکا۔ ڈیڑھ سو کے قریب کرپشن کے میگا سکینڈلز پر سپریم کورٹ کہتی رہی کہ نیب ان کے مقدمات عدالت عظمیٰ کے پاس بھجوائے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ آج میاں رضا ربانی جیسا نظریاتی اور سنجیدہ شخص جب احتساب کمیشن کی بات کر رہا ہے تو انہیں کیا اپنی جماعت اور قیادت سے نہیں پوچھنا چاہئے کہ آخر کیونکر احتساب کمیشن پر پیش رفت نہ ہو سکی، مسلم لیگ ن جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں احتساب کمیشن پر حکومت پر دباؤ بڑھاتی نظر آتی تھی آخر کونسی ایسی وجوہات تھیں کہ جب وہ خود حکومت میں آئی تو نہ صرف یہ کہ احتساب کمیشن پر پیش رفت نہ ہو سکی بلکہ خود سابق صدر آصف زرداری کو کرپشن کی بنیاد پر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اس معاملہ پر سانپ سونگھ گیا۔

حقائق یہی ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے عملاً ملک کے اندر کرپشن کے خاتمہ اور کرپشن میں ملوث عناصر کے گرد قانونی شکنجہ کسنے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ نیب کے ادارہ کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اسی بنیاد پر عمران خان نے کرپشن ، لوٹ مار کو بڑے مسئلہ کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا اور انہیں سیاسی محاذ پر پذیرائی ملی، انہوں نے قوم سے سچ بولنے، کرپٹ عناصر اور انتخابات جیتنے کی اہلیت رکھنے والوں کو اپنی صفوں میں شامل نہ کرنے کا اعلان کیا اور عوام کی طاقت سے سیاسی تبدیلی کا عزم ظاہر کیا۔ جہاں تک کرپشن کے خلاف وزیراعظم عمران خان کی کمٹمنٹ کا سوال ہے تو اسے اس لئے سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا کہ وہ مخالفین کا احتساب چاہتے ہیں انہیں جیلوں میں ڈالنے پر مصر ہیں مگر انہیں اپنی صفوں میں موجود وہ چور اور لٹیرے بھول گئے جن کے خلاف مقدمات خود نیب کے اندر موجود ہیں اور بوجوہ انہیں نہ صرف جماعت میں پھر حکومت میں شامل کر لیا گیا اور بڑے بڑے عہدے دئیے گئے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں منتخب ایوانوں کے اندر ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دینے کا رجحان عام ہے تو دوسری جانب نیب سمیت بعض ادارے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے اپنے ایجنڈا پر گامزن ہیں۔

ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ اپوزیشن سمیت حکومتوں کا حصہ رہنے والے پچیس تیس اہم افراد کی گرفتاریاں دسمبر اور جنوری کے شروع میں متوقع ہیں اور ان گرفتاریوں کے حوالے سے شواہد کی بنیاد پر مقدمات تیار ہو رہے ہیں اور یہ کام سنجیدگی سے جاری ہے جہاں تک عوام الناس کی احتساب میں دلچسپی کا سوال ہے تو وہ خود اس کرپشن کے متاثرین میں شامل ہیں ملک میں مہنگائی’ بے روزگاری’ غربت’ جہالت’ پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ قومی سرمایہ عوام الناس کی حالت زار میں بہتری کیلئے استعمال ہونے کے بجائے لوٹ مار کا ذریعہ بنا حکومتوں میں رہنے والوں کے ساتھ اہم اداروں کے ذمہ دار افسران اور حکام نے قومی سرمایہ بے دریغ لوٹا اور پیسہ ملک سے باہر بھجوایا اس طرح وہ خود خوشحال ہوتے گئے اور ملک کنگال بنتا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ کرپٹ عناصر کے گھروں سے کروڑوں روپے اور غیر ملکی کرنسی برآمد ہوتی نظر آتی ہے یہ سب کچھ کیونکر ہوتا گیا اور کرپٹ عناصر کے گرد قانون کا شکنجہ اس لئے نہ کسا جاتا رہا کہ حکومتیں خود اس میں ملوث رہیں اور حکومتوں کی طرف دیکھتے ہوئے سرکاری حکام بھی ہاتھ رنگتے رہے اور ملک اس نہج پر آ کھڑا ہوا کہ اس پر قرضوں کا پہاڑ ہے۔ معاشی ترقی تو کیا معاشی بحالی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت سے اس حوالے سے جو توقعات تھیں وہ بھی ان کی ناقص حکمت عملی اور پالیسیوں کے باعث پوری نہیں ہو پا رہیں اور حکومتی ذمہ داران کی نا اہلی پر اب ریاستی اداروں کے ذمہ داران کو آگے بڑھ کر اس کے لئے فضا سازگار بنانا پڑ رہی ہے۔

جہاں تک احتسابی عمل کے غیر جانبدارانہ کردار کی بات ہے تو ابھی تک تو تاثر یہی قائم ہوا ہے کہ احتسابی عمل جانبدارانہ ہے اور ٹارگٹ حکومتی مخالفین ہیں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں شہباز شریف کی گرفتاری نے اس تاثر کو اور تقویت دی ہے جبکہ خود نیب نے بعض اہم عہدوں پر بیٹھے حکومتی ذمہ داران کے نام لیکر کہا کہ ان کے خلاف نیب کے مقدمات ہیں۔ لیکن انہیں پکڑنے میں لیت و لعل برتا جا رہا ہے کرپشن کے خلاف فضاء اور تحریک اس نہج پر آ گئی ہے کہ اب پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر احتسابی شکنجہ کرپٹ عناصر کے خلاف کسنا پڑے گا اور یہ کام حکومتی خواہشات پر نہیں بلکہ مؤثر شواہد کی بناء پر ہونا چاہئے اور جس جس کو پکڑا جائے ان کے اثاثے اور بینک بیلنس قوم کے سامنے لانے چاہئیں اور یہ سارا عمل اس بناء پر نہیں ہونا چاہئے جس بناء پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو پکڑا گیا اور تاثر یہی رہا کہ یہ عمل سیاسی انتقام ہے جہاں تک نیب قوانین میں ترامیم کا سوال ہے تو اس میں کرپٹ عناصر کے گرد مؤثر شکنجہ کسنے کے ساتھ خود نیب کے اختیارات اور نیب کے افسران کی اہلیت اور مقدمات پر پیش رفت کا طریقہ کار بھی طے ہونا چاہئے کیونکہ نیب قوانین کے تحت 30 روز کے اندر ٹرائل کی تکمیل اور ریفرنس کی فراہمی ممکن نہیں اور نیب کی تحویل میں ملزموں کو ضمانت کی فراہمی کے عمل پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے اور خاص طور پر احتساب کے عمل میں صرف وزیراعظم یا کابینہ نہیں پارلیمنٹ کا مؤثر کردار ہونا چاہئے اور جب تک کرپشن کے خلاف احتساب کا عمل پاکستان کے تمام طبقات اور اداروں تک وسیع تر نہیں ہوگا اور یہ ایک غیر جانبدارانہ عمل کے طور پر سامنے نہیں آئے گا احتساب کو انتقام قرار دینے کی روش جاری رہے گی۔