راولپنڈی: (دنیا نیوز) جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں درج کرلیا گیا، کاؤنٹر ٹریرازم ڈیپارٹمنٹ کے افسران کی تحقیقات جاری ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی اہم معلومات حاصل کی گئیں، ایمبولینس کے عملے کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
مولانا سمیع الحق کے بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 821 تھانہ ائیرپورٹ میں درج کیا گیا ہے، ایف آئی آر کے متن کے مطابق مولانا سمیع الحق پر حملہ شام 6 بج کر 30 منٹ پر ہوا، مولانا سمیع الحق کے پیٹ، دل، ماتھے اور کان پر 12 چھریوں کے وار کیے گئے، مولانا سمیع الحق آبپارہ میں احتجاج کے لیے چارسدہ سے آئے تھے۔
مولانا سمیع الحق کے بیٹے حامد الحق نے والد کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ یہ غیرشرعی عمل ہے اس لئے والد کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرائیں گے۔
ادھر کاؤنٹر ٹریرازم ڈیپارٹمنٹ کے افسران کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، ابتدائی تحقیقات کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی اہم معلومات حاصل کی گئیں۔ مولانا سمیع الحق نے 6 بج کر 40 منٹ پر سوسائٹی کی سیکورٹی کو خود فون کیا۔ جس کے بعد ایمبولینس گھر پہنچائی گئی، گھر سے ہسپتال منتقلی تک مولانا سمیع الحق زندہ تھے۔ نجی ہسپتال میں پہنچنے سے کچھ دیر قبل ہی وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے مولانا سمیع الحق نے ایمبولینس کے عملے کو قاتلوں کے متعلق آگاہ کیا، جس کے بعد انہیں شامل تفتیش کر لیا گیا، ابتدائی تفتیش کرنے والوں کا خیال ہے کہ قاتل کا گھر میں آنا جانا تھا، گارڈ اور ملازمین گھر سے باہر جاتے ہوئے دروازہ بند کر کے گئے، ایسے میں حملہ آور رہائش گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور مولانا پر چاقو کے پے در پے وار کئے۔
فرانزک ایکسپرٹ اور انسداد دہشت گردی فورس نے جائے وقوعہ سے خون کے نمونے، فنگر پرنٹس اور شواہد اکٹھے کر لیے، گھرمیں موجود ملازمین کے بیان بھی ریکارڈ کیے گئے۔