اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق وفاقی حکومت سے چودہ روز میں جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کیا حکومت کے پاس کابینہ کی منظوری سے بننے والی کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کا وقت نہیں؟ حکومت باقی کام چھوڑ کر اسے نمٹائے، بتایا جائے کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا ہے؟
گلگت بلتستان کے عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیس سے پہلے معلوم ہونا چاہیے، گلگت بلتستان کا قانونی و آئینی پس منظر کیا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ گلگت بلتستان سے متعلق سابقہ حکومت نے سرتاج عزیزکی سربراہی میں کمیٹی قائم کی، کمیٹی کی سفارشات کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستانی شہری کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان اب مکمل طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام ہے، گلگت بلتستان کا جموں کشمیر تنازع سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا ہے اور کیا حکومت کے پاس اپنی کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کا بھی وقت نہیں؟
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ خود کو پاکستانی تصور کرتے، پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں اور کیا چاہیے، بھارت نے عبوری سٹیٹس کا لفظ آئین میں لکھ دیا اور کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کیلئے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی پاکستان سے محبت کو دنیا میں اجاگر کیا جائے۔
عدالت نے کمیٹی کی سفارشات پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔