ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی واپسی

Last Updated On 28 September,2018 10:43 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا ) پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد کراچی سے مبینہ طور پر لاپتہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کارکنوں کی واپسی اور بازیابی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، ایم کیو ایم کی قیادت اس کو تحریک انصاف حکومت کا ریلیف سمجھتی ہے جس کی وہ اتحادی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ گزشتہ ایک ماہ میں ان کے 12 کے قریب لاپتہ کارکنوں کو بازیاب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'پولیس نے انہیں مختلف مقدمات میں ظاہر کیا ہے ۔' فیصل سبزواری نے اس صورتحال پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کو منظر عام پر لانا تحریک انصاف حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم کے جاری مذاکرات کا نتیجہ ہے۔

دوسری جانب جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو اور جسٹس عبدالرشید سومرو پر مشتمل ڈویژن بینچ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی درخواستوں کی سماعت ہوئی، سماعت کے موقع پر پولیس نے رپورٹ پیش کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کئی ماہ سے لاپتہ مزید آٹھ افراد گھر واپس آگئے ہیں۔ واپس لوٹنے والوں میں فرقان صدیقی، افتخار، محمد حسین، عبدالرحمن، محمد جاوید، عشرت اللہ اور محمد علی شامل ہیں۔ عدالت میں ایک لاپتہ نوجوان بھی پیش ہوا، جس سے عدالت نے دریافت کیا کہ وہ کہاں تھے اور انہیں کون اٹھا کر لے گیا ؟ اس نوجوان نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں، عدالت نے استفار کیا کہ کچھ تو بتائیں کس کے خلاف کارروائی کی جائے ، جس پر اس نوجوان کا موقف رہا کہ وہ نہیں جانتا۔ اس موقعے پر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دیئے کہ اللہ کا شکر ہے کہ لاپتہ افراد گھر واپس آرہے ہیں، عدالت کی کوشش سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو حوصلہ ملا ہے، انھوں نے ان افراد کی درخواستیں نمٹا دیں۔ بازیاب ہونے والوں میں ایم کیو ایم کے کارکن محمد علی شامل ہیں، ان کی بیگم افیشن نے بتایا تھا کہ ان کے شوہر محمد علی کو سفید ڈبل کیبن میں سوار اہلکاروں نے سنٹرل جیل کے قریب سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ستمبر 2013 میں کراچی میں بھتہ خوری، سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا اعلان کیا گیا تھا، بعد میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس آپریشن کو قومی نیشنل پلان میں شامل کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں مارچ 2015 میں ایم کیو ایم کے سیاسی مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جس کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت بکھر گئی، بعض رہنما پاکستان سے باہر چلے گئے کچھ نے مصطفی کمال کا ساتھ دیا اور متعدد نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس دوران ایم کیو ایم میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوا اور ایم کیو ایم کی قیادت الطاف حسین سے ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر فاروق ستار سے خالد مقبول صدیقی کے پاس منتقل ہوگئی۔ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی شہر کی سیاسی قیادت ایم کیو ایم سے تحریک انصاف کو منتقل ہوگئی۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 14 اور ایم کیوایم نے صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی، دونوں جماعتیں پانچ سال تک ایک دوسرے کی رقیب رہیں تاہم وزیراعظم کے انتخاب میں اس سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور ایم کیو ایم نے عمران خان کی حمایت کی، جس کے بعد انہیں تین وفاقی وزارتیں دی گئیں۔

تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات میں ایم کیو ایم نے کراچی آپریشن کے خاتمے اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کا بھی مطالبہ رکھا تھا، جس پر عملدرآمد ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ انتخابات ہوگئے جو ٹارگٹ حاصل کرنے تھے وہ حاصل کر لیے گئے یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں رکنا تھا لہذا اب ان کارکنوں کو رہا کیا جا رہا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کارکن اب سیاست میں اتنا متحرک نہیں رہیں گے اور معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو ایک ایسے وقت میں ریلیف ملا جب رواں ماہ کراچی آپریشن کو پانچ سال مکمل ہو رہے ہیں، رینجرز کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں 10 ہزار 716 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، ان میں 21 سو سے زائد مشتبہ دہشت گرد، 18 سو سے زائد ملزمان ٹارگٹ کلنگ جبکہ 786 بھتہ خوری میں ملوث تھے۔ رینجرز کے مطابق اس آپریشن میں 29 اہلکار ہلاک اور 103 زخمی ہوئے۔ ایم کیو ایم کا موقف رہا ہے کہ اس آپریشن میں ان کے 60 کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکت ہوئی ہے جبکہ 131 کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔