اسلام آباد: (دنیا نیوز) ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیرِاعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے جبکہ سابق آئی جی پنجاب کی رپورٹ اور معذرت کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سابق آئی جی پنجاب سید کلیم امام نے ایک آدمی کو بچانے کیلئے اپنے افسروں کو جھوٹا ثابت کر دیا، لکھ دیا کہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے تو وہ پولیس فورس میں نہیں رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپنے سامنے پولیس افسران کو ذلیل کروایا، عدالت نے انکوائری رپورٹ مسترد کر کے نئی انکوائری کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی رپورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احسن جمیل گجر وزیرِاعلیٰ کے پاس سفارش لے کر گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سب اچھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس سربراہ کو اپنی اتھارٹی کی کوئی پرواہ نہیں، اگر لکھ دیا کہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے تو وہ پولیس فورس میں نہیں رہیں گے۔ احسن گجر کی جرات کیسے ہوئی کہ آئی جی سے تبادلے کا کہتا؟ وزیرِاعلی نے کس حیثیت سے پولیس افسران کو طلب کیا؟ اور اپنے سامنے انہیں ذلیل کروایا۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ وزیرِاعلیٰ بننے کے تین دن بعد معاملے کا علم ہوا، افسران کو خود ملنا چاہتا تھا، آر پی او کو اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسران سے ملیں، مگر احسن جمیل گجر کو دفتر میں کیوں بٹھایا؟ عثمان بزدار کو آئین کا آرٹیکل 62 نکال کر دکھائیں، آئندہ معاملات ایسے نہیں چلنے چاہیں، قانون کی عملداری یقینی بنائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم وزیرِاعلیٰ کےساتھ ایک وکیل تعینات کر رہے ہیں جو انھیں قانونی مشاورت دے گا۔
سابق آئی جی پنجاب نے کہا کہ احسن جمیل گجر بچوں کا گارڈین ہے جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا ان بچوں کا باپ فوت ہو گیا ہے؟ آپ نے احسن جمیل کے پاس کوئی گارڈین سرٹیفیکٹ دیکھا؟ آئی جی صاحب آپ نے پولیس کو ذلیل کروا دیا۔ سیکرٹری سٹیلشمنٹ کو بلاتے ہیں کیا آپ کہیں سے بھی آئی جی لگنے کے قابل ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کر دی۔