کلثوم نواز کا لندن میں کئی ماہ کی علالت کے بعد 68 برس کی عمر میں انتقال

Last Updated On 12 September,2018 09:19 am

لندن: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز ہارلے سٹریٹ کلینک لندن میں انتقال کر گئیں۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کلثوم نواز کی میت کو پاکستان لایا جائے گا۔ بیگم کلثوم نواز کینسر کے مرض میں لندن میں زیرعلاج تھیں۔ ان کی تدفین جاتی امراء رائیونڈ میں کی جائے گی۔

شہباز شریف

شہباز شریف کا کہنا تھا کلثوم نواز کی وفات شریف خاندان کیلئے بڑا دھچکا ہے، نواز شریف نے ہر مشکل وقت میں اہلیہ سے مشاورت کی، مرحومہ نے گھر بھی سنبھالا، آزمائش پڑی تو چاردیواری سے باہر نکلیں۔ انہوں نے کہا بیگم کلثوم نواز مشکل حالات میں باہر نکلیں، ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کیا۔

وزیراعظم عمران خان

وزیراعظم نے کلثوم نواز کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا حکومت اہلخانہ کو قانون کے مطابق تمام سہولیات دے گی۔ عمران خان نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو سہولیات کی فراہمی میں معاونت کی ہدایت کر دی۔

بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو زرداری نے بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا بیگم کلثوم نواز ایک بہادر خاتون تھیں، انہوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد کی۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے مرحومہ کو بلند درجات کے لئے دعا کی گئی۔

آرمی چیف

آرمی چیف کی جانب سے بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر اظہار افسوس کیا گیا، ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
 

 بیگم کلثوم نواز نے یکم جولائی 1950ء کو اندورن لاہور کے کشمیری گھرانے میں حفیظ بٹ کے ہاں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مدرستہ البنات سے حاصل کی، جبکہ میٹرک لیڈی گریفن اسکول سے کیا۔ انہوں نے ایف ایس سی اسلامیہ کالج سے کیا اور اسلامیہ کالج سے ہی 1970ء میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ادب سے گہرا لگاؤ ہونے کے باعث انہوں نے 1972ء میں فارمین کرسچیئن کالج سے اردو لٹریچر میں بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے اردو شاعری میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔ کلثوم نواز نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔

 2 اپریل 1971ء کو بیگم کلثوم کے ہاتھوں میں مہندی اور نواز شریف کے ماتھے پر سہرا سجا اور دونوں نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ نوازشریف اور بیگم کلثوم نواز کے دو بیٹے حسن اور حسین نواز، جبکہ دو بیٹیاں مریم نواز اور اسماء نواز ہیں۔

نوازشریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990ء کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993ء تک برقرار رہا۔ وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور انہیں بھیج دیا گیا۔

نواز شریف سے عہدہ چھینا تو جانثار فصلی بٹیروں نے بھی آشیانے بدل لیے۔ امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم نواز کو تنہا اپنے شوہر کے حق میں آواز اٹھانا پڑی۔ انہوں نے نہ صرف شوہر کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو بھی سہارا دیا۔ انہوں 1999ء میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی کی قیادت سنبھالی، لیگی کارکنوں کو متحرک کیا اور جابر آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ وہ 2002ء میں پارٹی قیادت سے الگ ہو گئیں۔

جون 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017ء تک ہی رہ سکا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ انہیں این اے 120 سے ڈی سیٹ کردیا گیا۔

ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے نوازشریف کی اہلیہ کو میدان میں اتار دیا۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہونے کے باعث 17 اگست کو لندن روانہ ہوئیں جس کے باعث این اے 120 سے انتخابی مہم چلانے کا بیڑہ بیٹی مریم نواز نے اٹھایا۔

 کلثوم نواز کو چند ماہ قبل گلے میں کینسر کے مرض کے باعث لندن منتقل کیا گیا تھا جہاں لندن کے بہترین ڈاکٹرز کی ایک ٹیم ان کا علاج کر رہی تھی۔ دوران علالت ہی الیکشن میں ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا جس پر مسلم لیگ ن کے حلقوں کی جانب سے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا گیا۔ مگر وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف لینے سے قاصر رہیں۔

بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے دوران بے ہوشی کی حالت میں رہیں، اس دوران ان کی بیٹی مریم نواز شریف، بیٹے حسین نواز ، حسن نواز بھی ہسپتال میں مسلسل موجود رہے اور ان کی تیمارداری میں مصروف تھے۔ اس دوران انہیں ایک دو بار ہوش بھی آیا اور انہوں نے ہسپتال میں موجود اپنے اہلخانہ سے بات چیت بھی کی جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ان کی حالت بہتر ہوجائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ اسی علالت کے دوران خالق حقیقی سے جا ملیں۔

بیگم کلثوم نواز کی ہارلے سٹریٹ کلینک میں پیر کی شب اچانک طبیعت زیادہ بگڑ گئی،،جس پر انہیں دوبارہ وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ ہارلے سٹریٹ کلینک کے ذرائع کا کہنا ہے،،بیگم کلثوم نواز کے پھیپھڑوں کا مسئلہ سنگین ہو گیا تھا انتقال کے وقت ان کے بیٹے حسین نواز،،حسن نواز،،چھوٹی بیٹی اسما اور اسحاق ڈار بھی ہسپتال میں موجود تھے۔

دنیا نیوز کے ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی میت کو ہارلے سٹریٹ کلینک سے ریجنٹ پارک اسلامک سینٹر کے سرد خانے میں منتقل کر دی گئی ہے۔ ان کی میت کو یہی سے ہی جمعرات کی شام لندن سے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی پرواز سے روانہ کیا جائے گا، یہ پرواز جمعہ کی علی الصبح لاہور ایئرپورٹ پر پہنچے گی۔ ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد جاتی امراء میں ادا کی جائے گی۔

تاہم پاکستان روانگی سے قبل لندن میں بھی بیگم کلثوم نواز کی نمازِ جنازہ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ ریجنٹ پارک اسلامک سینٹر میں جمعرات کے روز نمازِ ظہر کے بعد ادا کی جائے گی۔

 

بیگم کلثوم نواز کا ہارلے کلینک میں انتقال برطانوی وقت کے مطابق صبح سوا گیارہ بجے ہوا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کی برطانیہ میں موجود ن لیگی کارکن بڑی تعداد میں کلینک کے باہر اکھٹے ہونا شروع ہو گئے جبکہ بعد ازاں جب میت کو ریجنٹ اسلامک سینٹر منتقل کیا گیا تو وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے پہنچنا شروع کر دیا۔