عارف علوی ہی صدر ہونگے، دونوں بڑی پارٹیوں کیلئے مشکلات

Last Updated On 25 August,2018 09:06 pm

لاہور: (سلمان غنی) وزارت عظمیٰ پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے انتخاب کے بعد صدارتی محل کے نئے مکین کے انتخابی نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں جس شرح سے خود عمران خان کا انتخاب عمل میں آیا اسی شرح کے مطابق نئے صدر کا الیکٹورل کالج پی ٹی آئی کے امیدوار کا انتخاب کرے گا لہٰذا دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا اپوزیشن صدارتی انتخاب میں اپنا متفقہ امیدوار لا سکے گی۔ متفقہ امیدوار کی صورت میں ان کی کامیابی کے امکانات ہوں گے اور وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں طے شدہ معاہدے کے مطابق مسلم لیگ ن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے والی پیپلز پارٹی صدارتی انتخاب میں بھی ایسی کسی ناگہانی مجبوری کا شکار تو نہیں بن جائے گی۔

مسلم لیگ ن کے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حوالے سے خدشات کیا ہیں اور آج مری میں صدارتی انتخاب کے حوالے سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کارگر بن سکے گی ؟ جہاں تک صدارتی انتخاب کے الیکٹورل کالج کا تعلق ہے اس میں قومی اسمبلی سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہو گا جبکہ بقیہ تین اسمبلیوں کو سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد کے برابر یعنی 65-65 ووٹ ملتے ہیں۔ یوں ان اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد کو 65 پر تقسیم کرنے سے جو نمبر ملتا ہے ان تین اسمبلیوں کے اتنے اتنے اراکین ملکر ایک ووٹ رکھتے ہیں گو یا پنجاب اسمبلی کے 5.70 ارکان، سندھ کے 2.58، کے پی کے 1.90 اراکین کا ایک ووٹ ہے۔

اس طرح قومی اسمبلی کے 342 سینیٹ کے 104 اور چار صوبائی اسمبلیوں کے 465 اراکین کا مجموعہ 706 نکلتا ہے جو الیکٹورل کالج کا مجموعی عدد ہے۔

قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 اراکین موجود ہیں، 12 سیٹیں خالی ہیں۔ 330 میں سے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے 176 جبکہ اپوزیشن اراکین کے 150 ووٹ اور چار آزاد ارکان ہیں۔ سینیٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن الائنس سے 25 کا تعلق پی ٹی آئی الائنس سے اور 11 آزاد اراکین ہیں۔ یوں وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی الائنس کو 201، اپوزیشن الائنس کو 218 ووٹ حاصل ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں میں پنجاب میں پی ٹی آئی الائنس کو 33، اپوزیشن الائنس کو 30، آزاد 1، سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی الائنس 26، اپوزیشن الائنس 38 ، کے پی کے میں حکومتی الائنس 45 اور اپوزیشن الائنس کو 18 ووٹ اور آزاد 2 ہوں گے۔ بلوچستان میں حکومتی اتحاد 41، اپوزیشن 16 اور آزاد چار ہوں گے۔ اس طرح پی ٹی آئی اتحاد کو بحیثیت مجموعی 346 اور اپوزیشن اتحاد کو 320 ووٹ ملنے کی توقع ہے جبکہ آزاد و دیگر کی تعداد 23 ہے اور اگر اپوزیشن الائنس تمام آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل کر لے تو تب بھی اپوزیشن اتحاد کی جیت خارج از امکان ہے اور آزاد اراکین کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آزاد کم ہوتے ہیں اور وہ اپنا وزن ہمیشہ جیتنے والی پارٹی کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ آزاد اراکین بھی اپنا وزن پی ٹی آئی امیدوار کے پڑے میں ڈالیں گے۔

اب جہاں تک متفقہ امیدوار لانے کا سوال ہے تو پیپلز پارٹی نے بغیر کسی مشاورت کے اعتزاز احسن کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کر کے اپوزیشن اتحاد، خصوصاً مسلم لیگ ن کو مشکل میں ڈال دیا اور اعتزاز احسن کا نام تو مسلم لیگ ن اس لیے بھی قبول نہیں کر سکتی کہ اعتزاز احسن نے خود نواز شریف اور ان کی بیمار اہلیہ کے حوالے سے بڑے سخت خیالات ظاہر کئے تھے جس پر مسلم لیگ ن کے ان کے حوالے سے تحفظات تھے اور اس کے بعد پیپلز پارٹی نے طے شدہ معاہدہ کے تحت شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کیلئے ووٹ نہ دے کر بھی سیاسی عہد شکنی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اب صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار لانے کیلئے کیوں مصر ہے اس کی ایک وجہ وہ حکومت اور خصوصاً اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے اور اس کا مقصد انور مجید جیسے شخص کی ضمانت ہے جس کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ ان کا پکڑا جانا اور گرفتار رہنا زرداری خاندان کیلئے خطرے سے خالی نہیں لیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ مسلم لیگ ن ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے جال میں تو نہیں پھنستی جس کیلئے آج مری کا اجلاس اہم ہے۔

شہباز شریف کی دعوت پر بلائے جانے والے اجلاس میں متفقہ امیدوار کا فیصلہ متوقع ہے مگر لیگی ذرائع مصر ہیں کہ متفقہ امیدوار اعتزاز احسن نہیں ہو سکتے۔ مسلم لیگ ن کے ایک ذریعہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان پیپلز پارٹی کا اگر کوئی امیدوار متفقہ ہوسکتا ہے تو وہ رضا ربانی یا خورشید شاہ ہیں مگر رضا ربانی کا نام ہم نہیں لینا چاہتے جبکہ مسلم لیگ ن اس حوالے سے سرتاج عزیز، شاہد خاقان عباسی کے ناموں پر غور کر رہی ہے لیکن ہر دو صورتوں میں صدارتی محل کے مکین حکومتی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی ہی دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ آج کی آل پارٹیز کانفرنس کا اتنا فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں اپوزیشن جماعتیں متحدہ اپوزیشن کا روپ دھار لیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا جیل جانا اور اب سابق صدر آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہونا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والے حالات دونوں بڑی جماعتوں کیلئے مشکلات میں اضافہ کا باعث بنیں گے اور مسلم لیگ ن تمام تر تحفظات کے باوجود یہ ضروری سمجھتی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار ہی صدارتی انتخابات میں مقابلہ کی پوزیشن میں ہو سکتا ہے مگر وہ اس کیلئے پیپلز پارٹی میں اپنے مطلوبہ امیدوار کی حمایت کر سکتے ہیں، اعتزاز احسن انہیں کسی صورت میں قبول نہیں ہوں گے۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ وہ اب سولو پرواز کے بجائے اپوزیشن کے مؤثر کردار کیلئے سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر انہوں نے پیپلز پارٹی کی عہد شکنی کے باوجود ان کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا۔